امن کونسل کی صدارت خود کرونگا، برطانیہ، فرانس، یورپی یونین نے بھی قرارداد کا خیر مقدم کیا، جب کہ اسرائیل کا کہنا تھا کہ حماس کو غیر مسلح کیا جائے۔ غزہ امن منصوبے سے متعلق قرارداد منظور کیے جانے کے بعد پاکستان کے مستقل مندوب برائے اقوامِ متحدہ عاصم افتخار احمد نے کہا کہ اسلام آباد نے اس منصوبے کی حمایت ’’صرف ایک بنیادی مقصد‘‘ کے تحت کی جس میں خونریزی روکنا، خواتین اور بچوں سمیت بے گناہ فلسطینیوں کی جانیں بچانا، جنگ بندی برقرار رکھنا اور غزہ سے اسرائیلی فورسزکے مکمل انخلا کو یقینی بنانا شامل ہے۔
اقوامِ متحدہ کی پندرہ رکنی سلامتی کونسل کی جانب سے غزہ امن منصوبے سے متعلق قرارداد کی منظوری بلاشبہ ایک اہم سفارتی پیش رفت ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ پیش رفت اپنی ساخت، اپنے مضمرات اور اپنے ممکنہ نتائج کے اعتبار سے بے شمار سوالات کو جنم دیتی ہے۔ پاکستان سمیت سلامتی کونسل کے تیرہ اراکین نے اس منصوبے کی حمایت کی، جب کہ چین اور روس جیسی عالمی طاقتوں نے ویٹوکا استعمال نہ کرتے ہوئے صرف ووٹنگ سے غیر حاضر رہنے کا فیصلہ کیا۔ ان دونوں ممالک کے اس رویے کو ایک نرم سفارتی اشارہ تو ضرورکہا جا سکتا ہے، لیکن ساتھ ہی ان تحفظات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جن کا اظہار انھوں نے قرارداد پڑھنے کے بعد کیا۔
دونوں ممالک نے واضح طور پر کہا ہے کہ دو ریاستی حل کے خدوخال، غزہ کی مستقل حکمرانی کے نمونے اور تجویز کردہ عالمی فورس کے اختیارات اور دائرہ کار جیسے بنیادی معاملات قرارداد میں غیر واضح چھوڑ دیے گئے ہیں۔ ان تحفظات کی بنیاد پر یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ چین اور روس اس امن منصوبے کو مکمل اور واضح فریم ورک کے تحت دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن انھوں نے اس منصوبے کو ابتداً مسترد بھی نہیں کیا، جو اس امرکی نشاندہی کرتا ہے کہ عالمی طاقتیں بھی جنگ کے تسلسل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی بحران اور خطے کی مسلسل بے چینی سے گہری تشویش کا شکار ہیں۔
دوسری جانب فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے اس قرارداد کو فلسطینی عوام کے جائز اور بنیادی حقوق کے حوالے سے ناکافی قرار دیا ہے۔ حماس کا یہ دعویٰ کہ قرارداد میں کئی نکات ایسے ہیں جو فلسطینیوں کی تاریخی جدوجہد، زمین کے حق ملکیت، ریاست کے حق اور غاصب قوت کے مقابلے میں ان کے جائز مزاحمتی حق سے مطابقت نہیں رکھتے، کسی حد تک ایک سیاسی مؤقف ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے فریق کی آواز بھی ہے جس کے علاقے میں جنگ لڑی جا رہی ہے اور جس کی سیاسی حیثیت اب بھی فلسطینی داخلی سیاست میں موثر ہے۔ حماس کا یہ کہنا کہ قرارداد فلسطینیوں کے اصل مسائل کا احاطہ نہیں کرتی، اس بڑی حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ عالمی طاقتیں آج بھی مشرقِ وسطیٰ کے بحران کو انسانی المیے سے زیادہ اپنی جغرافیائی ترجیحات کے تناظر میں دیکھنے کی عادی ہو چکی ہیں۔
اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ حماس سمیت کوئی بھی فریق ایسا حل قبول کرنے کے لیے جلدی میں نہیں ہو سکتا جو فلسطینی عوام کے بنیادی سیاسی حقوق کو کمزور کرتا ہو یا ان کے مستقبل کو غیر واضح رکھتا ہو۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قرارداد کی منظوری کو ایک ’’ تاریخی لمحہ‘‘ قرار دیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ خود امن کونسل کی صدارت کریں گے۔ امریکی بیان اور صدر ٹرمپ کا رویہ اس بات کا اظہار ہے کہ امریکا اس مرحلے پر مشرقِ وسطیٰ میں اپنی فیصلہ کن موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
امریکا کی جانب سے سلامتی کونسل کی اس قرارداد کا خیر مقدم ایک ایسے ملک کے نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے جو ہمیشہ اسرائیل کی سلامتی اور اس کی فوجی برتری کو اپنی مشرقِ وسطیٰ پالیسی کا بنیادی ستون سمجھتا آیا ہے، لیکن اس بار واشنگٹن پر شدید عالمی دباؤ تھا کہ وہ انسانی بحران کی شدت، مسلسل بمباری اور ہزاروں جانوں کے ضیاع کو نظر انداز نہ کرے۔
یورپی یونین، برطانیہ اور فرانس نے بھی اس قرارداد کا خیر مقدم کیا ہے، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عالمی برادری کسی نہ کسی سطح پر اس جنگ کے لیے ایک قابلِ قبول بندش چاہتی ہے۔ تاہم اسرائیل کا یہ مؤقف کہ حماس کو مکمل طور پر غیر مسلح کیا جائے، ان مذاکرات کو ایک نئی پیچیدگی سے آشنا کرتا ہے۔ اسرائیل کے مطابق امن کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب غزہ سے حماس کے عسکری ڈھانچے کو ختم کردیا جائے، لیکن اس مؤقف سے یہ حقیقت بھی جھلکتی ہے کہ اسرائیل اب بھی مسئلے کو طاقت اور عسکری دباؤ کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے، نہ کہ سیاسی گفت و شنید کے ذریعے۔
تاہم اس قرارداد کے مضمرات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہے کہ امن منصوبوں کی تاریخ میں سب سے بڑا چیلنج ان کی عملی صورت گری ہوتا ہے۔ قرارداد کا متن خواہ کتنا بھی خوشنما کیوں نہ ہو، حقیقی دنیا میں اس کا نفاذ انھی طاقتوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو میدانِ جنگ میں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہیں۔
غزہ کی موجودہ صورتحال کسی بھی ایسے امن منصوبے کی کامیابی کے لیے ایک بڑا امتحان ہے۔ اسرائیل، جو گزشتہ کئی مہینوں سے غزہ پر شدید بمباری اور زمینی کارروائیوں میں مصروف ہے، کیا وہ اپنی عسکری حکمتِ عملی ترک کرنے کو تیار ہو جائے گا؟ کیا وہ عالمی فورس کی تعیناتی یا غزہ سے مکمل انخلا کے تقاضوں کو بلا تردد تسلیم کرے گا؟ اور کیا وہ دو ریاستی حل کے اس بنیادی اصول کو اختیار کرنے کے لیے تیار ہے جس کے تحت فلسطینی عوام کو ایک آزاد اور مکمل ریاست کا حق دیا جائے؟اسی طرح حماس کے لیے بھی یہ سوال نہایت اہمیت رکھتا ہے کہ اگر جنگ بندی مستقل ہو جاتی ہے اور غزہ کی انتظامی اور سیکیورٹی ذمے داریاں ایک عالمی فورس یا کسی مشترکہ فلسطینی ادارے کے حوالے کر دی جاتی ہیں تو کیا حماس اس نئے تناظر میں اپنی سیاسی و عسکری حکمتِ عملی کو تبدیل کرے گی؟ دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی کی داخلی کمزوریاں، علاقائی طاقتوں کی باہمی مسابقت اور عالمی طاقتوں کی ترجیحات، سب مل کر اس امن منصوبے کے مستقبل کو بے شمار غیر یقینیوں سے دوچار کر دیتی ہیں۔
سلامتی کونسل کی قراردادوں کی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ فلسطین کے معاملے پر منظور شدہ درجنوں قراردادیں تاحال بین الاقوامی لاتعلقی یا اسرائیلی ہٹ دھرمی کا شکار رہی ہیں۔ اس پس منظر میں نئی قرارداد کو ایک فیصلہ کن سنگ میل قرار دینا شاید قبل از وقت ہو، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ انسانی بحران نے دنیا کو مجبورکردیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی شکل میں مسئلے کے سیاسی حل کی طرف واپس آئے۔ اس قرارداد کے ذریعے پہلی مرتبہ طویل عرصے بعد غزہ کی صورتحال پر عالمی اتفاقِ رائے کی ایک کمزور مگر موجود لہر محسوس کی جا سکتی ہے، لیکن اس لہر کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کے لیے فلسطینیوں کے بنیادی حقِ خود ارادیت، ان کے علاقائی حقوق، ان کی ریاستی آزادی اور اسرائیلی قبضے کے خاتمے جیسے بنیادی اصولوں کو واضح الفاظ میں تسلیم کرنا ہوگا۔
اس تمام تر منظر نامے میں پاکستان کا کردار اور اس کی سفارتی موجودگی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ پاکستان کی تاریخ فلسطین کے ساتھ کھلے عام وابستگی اور اخلاقی حمایت سے بھری پڑی ہے۔ چاہے وہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی ہو، او آئی سی کا پلیٹ فارم ہو یا کسی بھی عالمی فورم پر بحث۔ پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کی ہے۔
موجودہ قرارداد کی حمایت پاکستان کی اس دیرینہ پالیسی کا استمرار ضرور ہے، لیکن ساتھ ہی اس میں ایک عملی انسانی پہلو بھی شامل ہے۔ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ غزہ کی موجودہ صورتحال میں ہرگھنٹہ قیمتی ہے اور خونریزی کے تسلسل سے بچنا اور انسانی جانیں بچانا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
اسی لیے اسلام آباد نے قرارداد کے کچھ مبہم پہلوؤں کے باوجود اسے انسانی بنیادوں پر مثبت قدم کے طور پر دیکھا۔آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ عالمی امن اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب قراردادیں محض کاغذی بیانات نہ ہوں بلکہ انصاف پر قائم بین الاقوامی نظام کے مطابق نافذ بھی کی جائیں، اگر فلسطینی عوام کو اس منصوبے کے نتیجے میں حقیقی امن میسر نہیں آتا، اگر ان کی زمین، ان کی شناخت، ان کا حقِ آزادی اور ان کی ریاستی حیثیت غیر یقینی رہتی ہے، تو پھر یہ قرارداد بھی ماضی کی بے شمار قراردادوں کی طرح تاریخ کے اوراق میں محض ایک اضافی صفحہ ثابت ہوگی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا مسئلہ فلسطین کو ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق کے بنیادی مسئلے کے طور پر دیکھے اور انصاف پر مبنی امن وہی ہوتا ہے جو فریقین کی رضامندی، حقوق کی مساوات اور قبضے کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔
دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ غزہ میں امن صرف بمباری روک دینے سے نہیں آئے گا۔ہم توقع رکھتے ہیں کہ سلامتی کونسل کی تازہ قرارداد دنیا کو ایک نئے راستے کی طرف لے جانے میں مدد دے گی، ایک ایسا راستہ جہاں فلسطین آزاد ہو، جہاں بچے خوف کے بغیر جی سکیں، جہاں انسانیت سیاست پر غالب آئے اور جہاں امن محض ایک لفظ نہیں بلکہ ایک حقیقت بن جائے۔