رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بدعنوانی کی حقیقی مقدار ناپنے کاکوئی قابلِ اعتمادطریقہ موجودنہیں،تاہم قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے صرف 2 برس میں 5300 ارب روپے کی ریکوریز اس کے حجم کااہم اشارہ ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ ریکوریز بدعنوانی کے مجموعی معاشی اثرات کا صرف ایک پہلو ہیں۔وزارتِ خزانہ نے یہ رپورٹ تین ماہ کی تاخیرکے بعد آئی ایم ایف کی شرط پر جاری کی ہے تاکہ ایگزیکٹو بورڈ کے آئندہ اجلاس میں 1.2 ارب ڈالرزکی دوقسطوں کی منظوری دی جاسکے۔
آئی ایم ایف نے پیشگوئی کی ہے کہ جامع گورننس اصلاحات کے نفاذسے پاکستان کی معیشت آئندہ پانچ سال میں 5 سے 6.5 فیصد تک اضافی جی ڈی پی حاصل کر سکتی ہے۔
رپورٹ میں بانی پاکستان محمدعلی جناح کے 1947 کے خطاب کاحوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ آج 70 برس بعد بھی بدعنوانی ملک کی معاشی و سماجی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے، جو سرکاری رقوم کاضیاع، مارکیٹ بگاڑ، غیر منصفانہ مسابقت، عوامی اعتمادمیں کمی اور سرمایہ کاری میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ شہری عام طور پر سرکاری خدمات کے حصول کیلیے رشوت دینے پر مجبور ہوتے ہیں، جبکہ پالیسی سازی پر سیاسی و معاشی اشرافیہ کاگہرا اثر ہے،جو سرکاری طاقت کو ذاتی مفاد کیلیے استعمال کرتی ہے، عدلیہ کی کمزوریاں اور احتسابی اداروں کی غیر موثریت بھی بدعنوانی کو فروغ دیتے ہیں۔
آئی ایم ایف نے 2019 میں پی ٹی آئی دور حکومت کے دوران چینی کی برآمد کی اجازت کو اس بات کی مثال قرار دیا کہ کس طرح بااثر کاروباری ادارے اور سرکاری عہدیدارپالیسیوں کو اپنے فائدے کیلیے موڑ لیتے ہیں۔
تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق شوگر مل مالکان نے ذخیرہ اندوزی، قیمتوں میں مصنوعی اضافہ اور جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ جیسے اقدامات سے اربوں کمائے،جبکہ عوام قیمتوں کے بحران کاشکار ہوئے اورف شواہد کے باوجود مؤثر احتساب نہیں ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ عوام عدلیہ کو ملک کے سب سے زیادہ بدعنوان اداروں میں شمارکرتے ہیں، اور عدالتی نظام میں عدم شفافیت، کمزور کارکردگی اور نااہلی انصاف کی فراہمی کو متاثرکرتی ہے۔
آئی ایم ایف نے تجویز کیا کہ عدالتی افسران کی کارکردگی اور اخلاقی معیارکی نگرانی کا نظام مضبوط بنایا جائے۔
رپورٹ میں ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں حالیہ تبدیلیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اگر شفاف اصول نہ بنائے گئے تو عدلیہ کی آزادی پرخدشات بڑھ سکتے ہیں، ججوں کی تقرری کیلیے واضح، شفاف اور میرٹ پر مبنی معیار وضع کیا جائے۔
آئی ایم ایف نے کہاکہ ٹیکس نظام کی پیچیدگی، سرکاری اخراجات و مالیاتی انتظام میں کمزوریاں، پبلک پروکیورمنٹ اور ریاستی اداروں کی نگرانی کافقدان ملک میں بدعنوانی کے بڑے محرکات ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بدعنوانی نہ صرف عوامی خدمات کو متاثرکرتی ہے، بلکہ معاشی ترقی،سرمایہ کاری اور قومی وسائل کے مؤثر استعمال میں بھی رکاوٹ بنتی ہے۔