عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق پاپیری قصبے کے رہائشیوں نے بتایا کہ حملے کے بعد والدین اور رشتہ دار اپنے بچوں کی تلاش میں دیوانہ وار دوڑتے رہے۔
62 سالہ دادا، داودا چیکولا نے الجزیرہ کو بتایا کہ ان کے چار پوتے پوتیاں غائب ہیں جن کی عمریں صرف 7 سے 10 سال کے درمیان ہیں۔
انھوں نے روتے ہوئے کہا کہ نہیں معلوم ہمارے بچے کہاں اور کس حال میں ہیں۔ جو بچے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے وہ بھی بکھر گئے ہیں۔
ادھر ریاست نائجر کی حکومت کا کہنا ہے کہ علاقے میں پہلے ہی سیکیورٹی خطرات سے متعلق انٹیلیجنس الرٹس موصول ہو چکی تھیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی تنبیہ کے باوجود انتطامیہ نے حکومتی اجازت اور اطلاع دیئے بغیر اسکول کو دوبارہ کھول کر طلبا و اساتذہ کو غیر ضروری خطرے میں ڈالا۔
دوسری جانب عیسائی تنظیم کرسچین ایسوسی ایشن آف نائیجیریا نے بتایا کہ اغوا شدگان کی تعداد ابتدائی اندازے سے کہیں زیادہ ہے۔
عیسائی تنظیم نے بیان میں کہا کہ حتمی گنتی کے بعد 303 طلبا اور 12 اساتذہ کے اسکول سے اغوا ہونے کی تصدیق ہوگئی۔
ابتدا میں کہا گیا تھا کہ اسکول پر حملے کے بعد اندازاً 215 طلبا لاپتا ہیں جنھیں حملہ آور اپنے ساتھ نامعلوم مقام پر لے گئے۔
سیٹلائٹ سے لی گئی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سینٹ میریز اسکول ایک بڑا کمپلیکس ہے جو پرائمری اور سیکنڈری دونوں حصوں پر مشتمل ہے اور اس میں 50 سے زائد عمارتیں شامل ہیں۔
یاد رہے کہ چند روز قبل ہی شمال مغربی ریاست کیبی کے قصبے ماگا میں بھی ایک اسکول پر حملہ کرکے 25 طالبات کو اغوا کر لیا گیا تھا جن میں سے ایک لڑکی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
حیران کن طور پر تاحال کسی شدت پسند گروپ نے ان دونوں واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے البتہ ایسے واقعات میں بوکو حرام ملوث رہی ہے۔
حکام کے مطابق تاکتیکی فورسز اور مقامی شکاری گروہوں کو بچوں کی تلاش اور بازیابی کے لیے روانہ کر دیا گیا ہے۔
دو روز قبل ایک کتھولک چرچ پر حملے میں دو افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ پادری سمیت متعدد افراد کو اغوا کرلیا گیا تھا۔
ان واقعات کے بعد نائجیریا کے صدر نے جنوبی افریقا کی سمٹ کو ادھورا چھوڑ کر ملک کی راہ لی تھی اور سیکیورٹی اجلاس کی قیادت کی۔
تاہم ان اجلاس کے فوری بعد کیتھولک اسکول پر حملے کا تازہ واقعہ پیش آگیا جس نے ملک میں سیکیورٹی انتظامات پر سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نائیجیریا میں مسیحیوں کے مبینہ قتلِ عام پر فوجی کارروائی کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔
نائجیریا نے اس دھمکی کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلح گروہوں کے حملوں میں مسلم آبادی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔