ایسا ہی کچھ کراچی پریس کلب کی اس بھری پری محفل کا منظر تھا جس میں اسلام آباد اور امریکا سے آئے ہوئے جامعہ کراچی کی طلبہ یونین کے سابق صدر مصطفین کاظمی اور سیکریٹری رفیق پٹیل-81 1980 کی یادوں کو تازہ کر رہے تھے۔
جس میں ضرار خان اور سینئر صحافی مظہر عباس سمیت سہیل سانگی، محمد علی، ڈاکٹر توصیف احمد خان، امین نصرت، عزیز سنگور اور علی اوسط بھی سب کے ساتھ اپنی یادوں کو بانٹ رہے تھے، گویا یادوں کا ایک گلدستہ تھا جو بھیگتی رات میں اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ مہک رہا تھا۔
طلبہ کی سیاست کو طاقت کے بل بوتے پر اجاڑے جانے والے جامعہ کراچی میں محبتیں بانٹنے کی نہ وہ اب ’’ پریم گلی‘‘ رہی ہے، طلبہ ہاسٹل پر قبضہ کر کے ہاسٹل کی وہ بے پرواہ زندگی ختم کردی گئی ہے جہاں طلبہ کی آزادی ہمہ وقت رقصاں رہا کرتی تھی اور نہ اب وہ ہلچل اور سرگرمی سے بھری جامعہ کی آرٹس لابی رہی ہے جہاں طلبہ سیاست تمام تر نظریاتی اختلافات کے باوجود متحرک اور باوقار رہتی تھی۔
جامعہ کے اس آزاد فکر ماحول کو اجاڑنے کا کام جنرل ضیاالحق نے شروع کیا، جو آج کی چیختی تاریخ کا بدنما حصہ ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب طلبہ کی جمہوریت پسند سوچ پر پہرے بٹھانے کی کوشش کی جا رہی تھی، طلبہ کی ترقی پسند اور روشن خیال سوچ کو توپ و تفنگ کے سوداگر، روشن خیال فکر کے سوتوں کو خشک کرنے کی تدبیریں کر رہے تھے۔
ملک بھر کی جامعات میں طلبہ کے ہاتھوں میں سر عام ’’کلاشنکوف کلچر‘‘ کا ماحول متعارف کروایا جا رہا تھا، طلبہ و طالبات کو جنس کے تضاد میں الجھا کر تقسیم کرنے کی راہ جامعہ کے ذہین طلبہ کو دکھانے کی کوشش کی جارہی تھی، طلبہ میں قرونِ وسطی کے جہالت پر مبنی افغان جہاد کے زہرکو انجکشن کے ذریعے تر و تازہ ذہن میں اتارا جا رہا تھا۔
بس یہی وہ مرحلہ تھا جب جامعہ کراچی کے طلبہ نے یکسو ہوکر اپنے جمہوری حق کو ضیائی مارشلا سے منوانے کی ٹھان لی تھی۔ جامعہ کراچی کے سب طلبہ کو ایک روشن خیال فکر کی بنیاد پر اکٹھا کرنے میں جامعہ کراچی کی پریم گلی سے لے کر ہر کلاس میں ہر طلبہ کا نعرہ جامعہ کراچی کی فضاؤں میں مذہبی جہادیوں کے لیے سوہان روح بنا ہوا تھا کہ…
جامعہ کے دل کا چین’’مصطفین… مصطفین…‘‘یہ وہ دور تھا جب جنرل ضیاالحق نے اپنی تنگ نظر سوچ اور جہاد کی میخیں جامعہ کراچی کے طلبہ میںدہشت گردی اور خوف سے ٹھونکنے کی کوشش کیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس ضیائی مارشل لاء کے زمانے میں جامعہ کراچی کی طلبہ یونین کا الیکشن عالمی طور سے اہم الیکشن تصور کیا جاتا تھا، جس سے خطے کی سیاسی چال کی سدھ بدھ عالمی طور کا ایک پیمانہ ہوا کرتی تھی۔
یہی وہ وجہ تھی کہ اس تنگ نظر افغان جہادی دور میں ہر ایک کی نظریں جامعہ کراچی میں طلبہ یونین کے الیکشن پر مرکوز رہتی تھیں اور الیکشن میں کسی کی جیت ہی ملک کے سیاسی ذہنوں کو جانچنے کا وہ آلہ ہوا کرتا تھا جس کی روشنی میں عالمی قوتیں خطے کی سیاست میں اپنے کردار کا تعین کرتی تھیں۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ایک منتخب جمہوریت کو لتاڑ کر ملک میں دوسری مرتبہ آئین کو تاراج کر کے ضیا جنرلی اقتدار سے بندوق اور طاقت کے زور پر جمہوریت پسند عوام کو آمرانہ غلام بنانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔
اور جمہوریت پسند عوام کی قوت مزاحمت کو روکنے کے لیے ملک کی سب سے بڑی جامعہ کراچی کے طلبہ کو قابو میں کرنے کی تدبیر میں آمرانہ طاقت فراہم کرکے طلبہ تحریک کی مزاحمت کو روکنے کی کوشش کا سب سے پہلا ہدف جامعہ کراچی ٹہرا تھا۔
مگر جنرل ضیا کے غیر سیاسی عزائم کے خلاف جامعہ کے ترقی پسند و روشن خیال طلبہ نے مزاحمت کو مزید منظم کرنے کے لیے تمام طلبہ یونین کو ’’ پروگریسو فرنٹ‘‘ کے تحت متحد کیا اور مذہبی طلبہ تنظیم جس کو جنرل ضیا کی مکمل حمایت حاصل تھی کا خم ٹھونک کر طلبہ محاذ پر مقابلہ کرنے کی ٹھان لی، جس کے لیے اس وقت کے مزاحمتی کردار کا سب کی زبان پر ایک ہی نام طلبہ کے دل کا چین ’’مصطفین، مصطفین ‘‘ تھا۔
پروگریسو فرنٹ کی قیادت کے نامزد صدارتی امیدوار مصطفین کاظمی نے کی، نہ دن دیکھا نہ رات۔ نہ وہ تھکا اور نہ ہی اس کے پائے استقامت میں جنبش آئی۔
اسلامی جمعیت طلبہ کے صدارتی امیدوار کو عبرتناک شکست دینے کے بعد انتقامی طور سے جامعہ کراچی کے نو منتخب صدر مصطفین کاظمی کے کام کرنے میں مختلف انداز سے روڑے اٹکائے گئے مگر مصطفین اور اس کے ساتھیوں نے کسی بھی سمجھوتے سے گریز کرتے ہوئے جامعہ کے طلبہ کی فلاح و بہبود اپنے دیے گئے منشور پر جاری رکھی۔
جب طلبہ یونین کے یہ مزاحمت کارکسی طور ریاست کے غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے باز نہ آئے تو بقول مصطفین کاظمی، جنرل ضیاالحق نے اپنی مارشل لاء authorities سے وائس چانسلر کو ہدایات دلوا کر یونین فنڈز کوcease کروا دیا، جس پر جب طلبہ کا زبردست احتجاج ہوا تو مصطفین کاظمی کو MLO-12 مارشل لاء آرڈر 12 کے تحت پابند سلاسل کردیا گیا۔
جس کے رد عمل میں کراچی شہر میں آگ لگ گئی، اس وقت مصطفین Association of Progressive Students unions کا چیئرمین تھا جس میں شہر کی 53 طلباء unions کے منتخب صدور شامل تھے،حکومتی قہر سے بے پرواہ شہر سے طلبہ کی بسیں بھر بھر کر جامعہ کراچی آنا شروع ہوگئیں۔
اسی اثناء میں جیسے جیسے احتجاج نے زور پکڑنا شروع کیا تو مجبورا مصطفین کاظمی کو رہا کر دیا گیا اور پھرکچھ دنوں کے بعد حکومت نے طلبہ یونین کے تمام مطالبات ماننے شروع کردیے،جس میں کافی تعداد میں، کولرز، پنکھے، بسیں،photocopying machines وغیرہ طلبہ یونین نے وصول کیے اور ان کی installation کردی گئی، جس سے یونیورسٹی کے طلبا میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ جب آیندہ انتخابات کا دور شروع ہوا تو اس وقت طلباء نے سہولیات کی فراہمی کو بہت سراہا تھا۔
جامعہ کراچی میں طلبہ یونین میں جہاں ترقی پسند فکر اور روشن خیالی کی بات آئے گی تو پھر یہ ممکن ہی نہیں کہ اس وقت کے طلبہ رہنما اور طلبہ یونین کے سابق سیکریٹری جنرل رفیق پٹیل کا ذکر نہ ہو۔
رفیق پٹیل کی سیاسی تربیت کا شہر حیدرآباد تھا جس میں سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن SNSF میں متحرک ساتھی سہیل سانگی، سرفراز میمن اور آفتاب خانزادہ کی طلبہ سیاست میں کوششیں بھی سندھ کی طلبہ سیاست کا ایک یادگار دور ہے۔