اختر مینگل کا دھرنا ختم کرنے سے انکار، مطالبات نہ ماننے پر آج ہر صورت کوئٹہ کی جانب مارچ کا اعلان

0 minutes, 0 seconds Read

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ اختر مینگل نے حکومت کی تمام کوششوں کے باوجود دھرنا ختم کرنے سے انکار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جب تک مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے، احتجاج جاری رہے گا۔ اختر مینگل نے اعلان کیا کہ اگر آج بھی مطالبات نہ مانے گئے تو ہر صورت کوئٹہ کی جانب مارچ کیا جائے گا۔

اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے گزشتہ روز اختر مینگل سے رابطہ کیا اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ ان کے مطالبات وزیراعظم کے سامنے اٹھائے جائیں گے۔ تاہم اختر مینگل نے واضح کیا کہ محض یقین دہانی کافی نہیں، جب تک عملی اقدامات نہیں ہوتے، احتجاج ختم نہیں ہوگا۔

گزشتہ روز بلوچستان حکومت کا اعلیٰ سطحی وفد بھی مستونگ کے علاقے لک پاس میں دھرنا گاہ پہنچا اور مظاہرین سے دھرنا ختم کرنے کی اپیل کی۔ حکومتی وفد میں سابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی غزالہ گولہ اور صوبائی وزیر تعلیم راحیلہ درانی شامل تھیں۔

ذرائع کے مطابق بلوچستان حکومت نے مظاہرین سے کہا ہے کہ وہ کوئٹہ کے ریڈ زون کی جانب مارچ نہ کریں بلکہ سریاب روڈ سے ہوتے ہوئے شاہوانی روڈ تک محدود رہیں۔ تاہم دھرنا قیادت نے اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا اور احتجاجی کیمپ بدستور قائم ہے۔

یہ مذاکرات کے لیے حکومت کی جانب سے بھیجا گیا تیسرا وفد تھا، جس نے دھرنا شرکاء سے مذاکرات کی کوشش کی، مگر ابھی تک کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔

’کچھ عناصر ریڈ زون کو یرغمال بنانے پر بضد ہیں‘: بلوچستان حکومت کا بی این پی لانگ مارچ کیخلاف کارروائی کا عندیہ

قبل ازیں، بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا تھا کہ بی این پی (مینگل) کے مجوزہ لانگ مارچ کے حوالے سے سیکیورٹی خدشات موجود ہیں، جنہیں چند حالیہ واقعات نے مزید تقویت دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مارچ کے دوران قیادت کی جانب سے کی گئی تقریر پر بھی حکومت کو تشویش ہے، جس کا جائزہ لیا گیا ہے اور اب قانونی راستہ اپنایا جائے گا۔

شاہد رند نے ہفتے کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے اب تک صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، اور مارچ کے شرکا سے دو مرتبہ مذاکرات ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے انہیں شاہوانی اسٹیڈیم، سریاب روڈ تک آنے کی اجازت دی، لیکن وہ اس پر آمادہ نہیں ہوئے۔ ترجمان کے مطابق صوبے میں اس وقت بھی دفعہ 144 نافذ ہے، اور اس کی خلاف ورزی کی صورت میں قانون اپنا راستہ لے گا۔

بلوچستان کے امن میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، صوبے میں انتشار کی کوششیں بے نقاب ہو چکیں، کور کمانڈر کانفرنس

شاہد رند کا کہنا تھا کہ بی این پی (مینگل) کے کچھ عناصر ریڈ زون کو یرغمال بنانے پر بضد ہیں، مگر حکومت قانون کے مطابق انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم امید کرتے ہیں مسئلہ مذاکرات سے حل ہوگا، لیکن اگر وہ ضد پر قائم رہے تو حکومت کے پاس دیگر آپشنز بھی موجود ہیں۔

ادھر سردار اختر مینگل کی جماعت بی این پی (ایم) نے 6 اپریل کو کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے، اور کارکنان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 5 اپریل تک مستونگ کے علاقے لک پاس پہنچ جائیں۔ پارٹی بی وائی سی کے تمام رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے۔

لانگ مارچ میں بی این پی (ایم) کو دیگر اپوزیشن جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ نیشنل پارٹی، پی ٹی آئی، اے این پی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے مارچ میں شرکت کا اعلان کیا ہے، جس سے مارچ کو ایک بڑا سیاسی اجتماع تصور کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب حکومت نے مارچ کے شرکاء کو کوئٹہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے اقدامات سخت کر دیے ہیں۔ داخلی راستوں پر کنٹینرز کھڑے کر دیے گئے ہیں، سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے، اور اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔

کیا پی ٹی آئی کی تحریک سولو فلائٹ ہوگی یا احتجاج میں اتحادی شامل ہوں گے؟

تاہم، نجی ٹی وی کے مطابق سیاسی اور قبائلی حلقوں کے ذریعے پسِ پردہ مذاکراتی کوششیں بھی جاری ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے عید تعطیلات کے دوران اپوزیشن رہنماؤں، جیسے ڈاکٹر مالک بلوچ اور مولانا عبدالواسع سے ملاقاتیں کی ہیں۔

سرفراز بگٹی نے بلوچستان اسمبلی میں یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ اگر اپوزیشن چاہے تو حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے سکتی ہے، جس کی صدارت ڈاکٹر مالک یا اپوزیشن لیڈر یونس عزیز زہری کو دی جا سکتی ہے۔

Similar Posts