سرکاری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تعیناتی کا کیس، عدالت کے اختیار سماعت پر اعتراض

وفاقی آئینی عدالت میں سرکاری یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران وفاقی آئینی عدالت کے اختیار سماعت پر اعتراض اٹھا دیا گیا.

تفصیلات کے مطابق دوران سماعت ملتان کی انجینئرنگ یونیورسٹی کے وکیل نے اعتراض اٹھایا کہ وفاقی آئینی عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف کورٹ آف اپیل نہیں ہے. جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا آپ الگ سے کوئی درخواست دائر کریں گے، وکیل نے جواب دیا میں ایک متفرق درخواست دائر کروں گا.

وفاقی آئینی عدالت میں سرکاری یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی سے متعلق اہم کیس کی سماعت کی گئی۔ چیف جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں اسلامک یونیورسٹی کے وکیل نے بتایا کہ یونیورسٹی کے ریکٹر کو عبوری طور پر چیئرمین ہائر ایجوکیشن بنایا گیا تھا لیکن چیئرمین ہائر ایجوکیشن اب ریٹائر ہو چکے ہیں اور اس وقت یونیورسٹی میں مستقل ریکٹر تعینات نہیں۔

انہوں نے موٴقف اپنایا کہ ریکٹر کی تعیناتی صدرِ پاکستان بطور چانسلر کرتے ہیں، جبکہ عدالت کو انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت کا اختیار حاصل نہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئینی عدالت کے اختیارِ سماعت پر اعتراض کی بنیاد کیا ہے؟ اس پر وکیل نے کہا کہ انٹراکورٹ اپیلیں پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت دائر کی گئیں، آرٹیکل 184/3 27 ترمیم میں ختم کر دیا گیا ہے۔

سماعت کے دوران ملتان انجینئرنگ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی جانب سے بھی عدالت کے اختیارِ سماعت پر اعتراض اٹھایا گیا۔ وائس چانسلر کے وکیل عبدالرحمن لودھی نے کہا کہ مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی سے متعلق سپریم کورٹ پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے، جس کے خلاف انہوں نے انٹراکورٹ اپیل دائر کی تھی جو آئینی بنچ میں مقرر ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے بعد کیس اب وفاقی آئینی عدالت میں لگا ہے، مگر عدالت سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف ”کورٹ آف اپیل“ نہیں ہے۔ عبدالرحمن لودھی نے مزید کہا کہ آرٹیکل 184کے تحت فیصلوں کی اپیلیں وفاقی آئینی عدالت میں منتقل ہوئی ہیں، لیکن آرٹیکل 175ای کے تحت سپریم کورٹ میں کوئی کیس زیر التوا نہیں۔

اس موقع پر جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیے کہ ترمیم کے بعد آرٹیکل 184 ختم کردیا گیا ہے جبکہ جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ اسی ترمیم میں ازخود نوٹس کا اختیار بھی ختم کردیا گیا ہے۔

بینچ نے استفسار کیا کہ کیا واقعی وفاقی آئینی عدالت سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل سن سکتی ہے؟ اور وکیل سے پوچھا کہ وہ الگ اپیل کیوں دائر نہیں کرتے؟ جس پر عبدالرحمن لودھی نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں متفرق درخواست دائر کریں گے۔

بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی۔

Similar Posts