سسٹم کا بحران اور امکانی خدشات

پاکستان کا بحران سیاسی ، سماجی، معاشی، سیکیورٹی یا محض انتظامی نوعیت کا ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر یہ سسٹم میں موجود بڑے بحران کی عکاسی کرتا ہے ۔ اس بحران سے مراد ایک ایسا سسٹم ہے جہاں اداروں کے درمیان بھی اختیارات کی کشمکش ہے جب کہ سیاست میں بھی تناؤ اور ٹکراؤ کی صورتحال ہے جہاں آئین و قانون کی بالادستی یا جمہوری اقدار کے مقابلے میں جوڑ توڑ اور مفادات کی لڑائی ہے۔

اس لڑائی میں پورا نظام اپنی اپنی سیاسی ،آیئنی ،قانونی یا انتظامی حدود یا دائرہ کار میں کام کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کرکے عملی طور پر بحران کو اور زیادہ گہرا کررہے ہیں ۔چند برس قبل ملک کے ایک معروف سیاسی دانشور،لکھاری اور علمی و فکری شخصیت فرخ سہیل گویندی نے ایک کتاب ’’ بکھرتا ہوا سماج‘‘ لکھی تھی ۔اس کتاب میں انھوں نے ریاست کے بحران کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا تھا اور ان محرکات کا تجزیہ کیا تھا کہ کیسے ریاست کا نظام کمزوری کی طرف بڑھ رہا ہے۔آج جب پاکستان کے ریاستی ،سیاسی اور علاقائی یا عالمی سطح پر موجود مشکلات کو دیکھتا ہوں تو ان کی کتاب ’’بکھرتا ہوا سماج ‘‘ سامنے آتی ہے ۔

ان کے بقول جب اقتدار کی کشمکش یا تناو گہرا ہوجائے اور معاملات چند افراد یا خاندان کے مفادات تک محدود ہوجائیں تو پھر نظام کی اصلاح اور زیادہ مشکل ہوجاتی ہے۔لیکن شاید کوئی بھی اقتدار میں شامل افراد یا فیصلہ ساز یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کی باہمی لڑائی یا اقتدار کی اس جاری جنگ نے نظام کو نئے نئے بحرانوں میں دھکیل دیا ہے۔اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ ریاست کا نظام سماجی تشکیل اور سماجی ارتقا،سوچ، فکر اور طرزعمل سے ہی جڑا ہوتا ہے ۔جب کہ ہمارا سماجی ،تہذیبی ،ثقافتی ،علمی اور فکری ڈھانچہ انحطاط کا شکار ہے او راسی وجہ سے معاشرے میں دانشورانہ کردار بھی مایوس کن نظر آتا ہے۔

یہ بات کافی حد تک بجا ہے جب سیاست ،جمہوریت ،انتظامیہ ،قانون اور سماجی انصاف پر مفادات غالب ہوجائیں تو وہاں عملی طور پر ریاست کا کنٹرول اشرافیہ کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے ۔ ان کی بالادستی نمایاں ہوتی ہے اور سیاسی و سماجی عمل کمزوری کا سبب بنتا ہے ۔اصل میں حکمرانی او رسماجی سطح پر نظام کی درستگی کبھی بھی ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں رہی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ نظام پر کنٹرول کرکے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں، یہ درست حکمت عملی نہیں ۔یہ کہنا کہ حکمرانی کا نظام درست سمت کی طرف بڑھ رہا ہے اس خوش فہمی سے بھی ہمیں باہر نکل کرحقایق کا ادراک کرنا چاہیے۔کیونکہ عالمی ممالک اور ترقی کو جانچنے والے اہم ادارے بھی ہمارے حکمرانی کے مجموعی نظام پر سخت تنقید کررہے ہیں ۔یہ معاملہ محض موجودہ حکمرانوں تک محدود نہیں بلکہ ماضی ا ور حال کے حکمرانوں کی نااہلی اور کمزور ترجیحات کا حصہ رہا ہے اورہم سب ہی اس کے ذمے دار ہیں۔

حال ہی میں آئی ایم ایف کی رپورٹ’’ گورننس اور کرپشن ‘‘ کے تحقیقاتی جائزہ میںپاکستان میں ہمیشہ سے موجود کرپشن سمیت بدعنوانی سے جڑے مسائل پر سخت گرفت کی گئی ہے۔ان اہم مسائل کو کسی ایک حکومت تک محدود کرکے تجزیہ پیش نہیں کیا گیا بلکہ نظام کی سطح پر بنیادی کمزوریوں اور گورننس کی ناکامی کی بنیاد پر پیش کیے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ یہ مسائل اور ناکامیاں کس طرح سے ملک کے معاشی مسائل کا حل پیش کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔

اسی رپورٹ میں پاکستان کے غیر شفاف نظام ، کمزور ٹیکس نظام،ریاستی اور حکومتی اداروں کی بدانتظامی ،عدالتوں یا عدلیہ کے محاذ پر پرانے اور فرسودہ قوانین کی وجہ سے معاہدوں کے نفاذ یا ملکیت کے حقوق میں رکاوٹوں ،سیاسی بنیادوں پر اداروں کو کمزور کرنا اور ان میں سیاسی مداخلت،مالی صوابدید کے مسائل،انسداد بدعنوانی کا کمزور ڈھانچے ،معاشی ترقی کے تناظر میں نئے اداروں کی تشکیل پرسوالات،شفافیت،قانونی چھوٹ پر بحث کرتی ہے اور ہمیں مجموعی طور پر جنجھوڑتی ہے۔اس رپورٹ کا بنیادی ماخذ یہ ہے کہ جس ریاست کا نظام غیر شفافیت پر مبنی ہوتا ہے تو ایسی ریاست کی اصلاح ممکن نہیں ہوسکتی۔

یہ نقطہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ معلومات تک رسائی کا نہ ہونا عملدرآمد،نگرانی اور شفافیت کے عمل کو بھی متاثر کرتا ہے۔جو پندرہ نکاتی سفارشات پیش کی گئی ہیں ان کا ہدف ادارہ جاتی ڈھانچوں میںموجود وہ کمزوریاں ہیں جو مفاداتی نظام کو ہی مضبوط بناتی ہیں۔اسی طرح سرمایہ کاروں کے اعتماد کو کمزور کرنا اور چند افراد تک نوازشات کی بارش مخصوص طبقہ کی ترقی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ان کے بقول موجودہ نظام کسی بھی طور پر عوامی مفادات کے تحفظ کو ممکن نہیں بناتا اور یہ عمل ریاست اور شہریوں کے درمیان اعتماد کے بحران کو اور زیادہ سنگین کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

یقینی طور پر پاکستان کے نظام میں کرپشن اور بدعنوانی ہمیشہ سے ایک سنگین مسئلہ رہا ہے ۔لیکن یہاں کا طاقت ور طبقہ نہ تو اسے مسئلہ سمجھنے کے لیے تیار ہے اور بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں اسے استثنی دے کر جواز فراہم کرتا ہے ۔ہم نے کرپشن اور بدعنوانی کو بنیاد بنا کر اس کے خاتمہ میں کئی اہم ادارے بشمول نیب بھی بنایا۔لیکن ہم نے ان اداروں کو اپنے مخالفین کے خلاف زیادہ استعمال کیا ہے۔

ہم نے جو بھی ادارے بنائے ان کے پیچھے شفافیت کا عمل کم اور سیاسی مفادات زیادہ اہم ہوتے ہیں ۔اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے طاقت ور طبقات کا جو باہمی گٹھ جوڑ ہے وہ کس طرح سے ریاستی نظام کو کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے۔اگر پاکستان کرپشن اور بدعنوانی پر قابو پالے تو وہ اگلے پانچ برسوں میں اپنی شرح نمو پانچ سے ساڑے چھ فیصد تک بڑھاسکتا ہے ۔لیکن اس کے لیے پاکستان کو اپنے بنیادی مسائل کے حل کے لیے سخت گیر اقدمات کو ممکن بنانا ہوگا۔لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب اس ملک کا حکمران اور طاقت ور طبقہ ریاستی اداروں اور وسائل کو ذاتی طور پر استعمال کرنے کی پالیسی سے گریز کرے۔

ہم اصلاحات پر زور توبہت دیتے ہیں مگر سوال یہ ہے کیا ان اصلاحات کی بنیاد پر تبدیلی کا عمل عام آدمی کو پہنچ رہا ہے تو جواب نفی میں نظر آتا ہے۔کیونکہ آئی ایم ایف کے مطابق سب سے بڑے مسائل عدلیہ،پولیس اور خریداری کا نظام ہے مگر اس پر کوئی عملی توجہ دیکھنے کو نہیں مل رہی۔یہ جو حالیہ یو این ڈی پی او رآئی ایم ایف کی رپورٹس ہیں اس سے تصویر کچھ یوں بنتی ہے کہ وسائل اور مراعات کی گیم میں کارپوریٹ سیکٹر،بڑے زمیندار،سیاسی طبقہ اور بڑی قوتیں شامل ہیں۔ان طبقوں نے غیر اعلانیہ اشرافیہ پر مبنی کارٹیل بنائی ہوئی ہے اور اس طبقہ کو ٹیکس چھوٹ ،سرمائے تک آسان رسائی ،زمین اور سروسز کے شعبوں میں ترجیحی مراعاتیںاور پالیسی کی شکل میں سالانہ ساڑھے سترہ ارب ڈالر تک کا فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔

ایک طرف بگرتی ہوئی معیشت اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مسائل تو دوسری طرف سیاسی اور جمہوری عدم استحکام یا عدلیہ او رمیڈیا کی خود مختاری سے جڑے سوالات یا انتظامی اور بیوروکریسی کی سطح پر کمزور اور بگڑتے ہوئے ادارے اور ادارہ جاتی نظام سے جری کمزوریاں یا عوامی مفادات سے جڑے معاملات سب میں بہت کچھ کرنا ہے یا اسے تبدیل کیے بغیر معاملات کا حل مشکل نظر آتا ہے۔ تو دوسری طرف بھارت اور افغانستان کی پاکستان مخالف سرگرمیاں اور جنگ جیسے حالات میں بھی علاقائی سیاست بھی ہم سے موجودہ حالات کے مقابلے میں مثبت تقاضے چاہتی ہے۔لیکن ہم اس بحران کو سمجھنے یا ماننے کے لیے تیار ہی نہیں اور جب تیار نہیں ہیں تو پھر ان حالات سے نمٹنے کی تیاری کا سوال تو بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔یہ جو ہم عارضی طور پر حکمرانی کے نظام کو روزمرہ کی بنیاد پر یا دوسروں پر انحصار کرکے چلانے کی کوشش کررہے ہیں اس سے مستقبل کی سیاست اور فیصلوں کو کوئی مثبت فرق نہیں پڑے گا۔ہم اگر بحران سے نکلنا چاہتے ہیں تو ہمارا موجودہ طرز عمل اور فیصلے ہی اس میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔

اس لیے پاکستان کے داخلی مسائل کا درست تجزیہ اور اس کی بنیاد پر درست سمت ہی ہمیں بڑے دلدل سے باہر نکلنے میں مدد دے سکتی ہے۔اگر ہم مصنوعی انداز میں اصلاحات کو بنیاد بنا کر داخلی یا خارجی سطح پر لوگوں کو جذباتیت کی سیاست سے جوڑ کر سب کچھ اچھا دکھاتے رہیں گے تو اس سے ہمارے نظام کی تصویر اور زیادہ بدنما نظر آئے گی یا ہم مزید پیچھے کی طرف جائیں گے۔اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی موجودہ روش اور فیصلوں سے باہر نکلیں اور وہ فیصلے کریں جو اس وقت ہماری ریاست اور عوام کے مفادات کی عکاسی کرے۔

Similar Posts