فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، اور جب بات مزاح کی ہو تو دلوں کو جوڑنے والا یہ فن کبھی قومیت یا زبان کا پابند نہیں بنتا۔ اسی بات کو سچ کر دکھایا بھارت کے معروف اسٹینڈ اپ کامیڈین، یوٹیوبر اور مصنف ابھیشیک اُپمنیو نے، جب انہوں نے پاکستان کے لیجنڈری کامیڈین امان اللہ خان کو اپنا پسندیدہ قرار دیا۔
ابھیشیک اُپمنیو، جنہوں نے روزمرہ زندگی کے مشاہدات کو مزاح میں ڈھال کر ایک الگ پہچان بنائی، نئی دہلی میں پیدا ہوئے اور کیمیکل انجینئرنگ میں تعلیم حاصل کی۔ چند سال کارپوریٹ دنیا میں گزارنے کے بعد اُن کا دل فن کی طرف مائل ہوا اور انہوں نے کامیڈی کو اپنا پیشہ بنا لیا۔ ان کے یوٹیوب ویڈیوز، خاص طور پر ’انڈین انسَلٹس اینڈ کَم بیکس‘، نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔
بھارت کا سب سے امیر کامیڈین، جس نے دولت میں جانی لیور اور کپل شرما کو بھی پیچھے چھوڑ دیا
ایک انٹرویو کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ اُن کے لیے سب سے پسندیدہ کامیڈین کون ہیں، تو اُن کا جواب سن کر سامعین حیران رہ گئے۔ اُنہوں نے بغیر کسی جھجھک کے امان اللہ خان کا نام لیا اور کہا کہ ’امان اللہ وہ واحد فنکار تھے جن سے سب نے کچھ نہ کچھ سیکھا یا چُرایا، یہاں تک کہ مشہور بھارتی کامیڈین راجو شریواستو نے بھی اُن کے انداز کو اپنایا۔‘
ابھیشیک نے مزید کہا کہ ’جو بھی غریب امیر والے لطیفے ہم سنتے ہیں، اُن کی شروعات امان اللہ نے ہی کی تھی۔ پاکستان میں ان کا عمر شریف کے ساتھ تقابل کیا جاتا تھا، لیکن عمر شریف فلمی انداز کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوگئے، مگر اگر بات اصل فن اور مشاہداتی مزاح کی ہو تو امان اللہ خان بے مثال تھے۔‘
انہوں نے دلچسپ واقعہ سنایا کہ جب امان اللہ بھارت کے ایک مشہور کامیڈی شو ’لافٹر چیلنج‘ کے سیزن 3 میں شریک ہوئے تو ججز نے انہیں جج کرنے سے انکار کردیا۔ کیونکہ دیگر تمام مقابلہ کرنے والے پہلے ہی امان اللہ کی نقل کر چکے تھے، اس لیے ججز کا کہنا تھا کہ وہ کسی ایسے فنکار کو کیسے جج کریں جسے سب نے کاپی کیا ہو۔
بھارتی کامیڈین باز نہ آئے، شیو سینا کیخلاف ایک اور گانا لکھ دیا
امان اللہ خان ایک ناقابلِ فراموش فنکار
پاکستانی اسٹیج اور ٹی وی کی تاریخ میں امان اللہ خان کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ 1964 میں گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے امان اللہ نے 1977 میں اسٹیج پر قدم رکھا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ 2,000 سے زائد اسٹیج ڈراموں کا حصہ بنے اور 860 دن مسلسل اسٹیج پر پرفارم کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔
ان کی حسِ مزاح، حاضر جوابی، اور زندگی کے تلخ و شیریں پہلوؤں کو مزاح میں سمو دینے کی صلاحیت نے انہیں جنوبی ایشیا میں ایک الگ مقام عطا کیا۔ وہ ’خبرناک‘، ’مذاق رات‘، اور ’خبرزار‘ جیسے مشہور ٹی وی شوز کا حصہ بھی رہے۔
اعزازات اور رخصت
2018 میں ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انہیں ’پرائیڈ آف پرفارمنس‘ سے نوازا۔ بدقسمتی سے 6 مارچ 2020 کو وہ گردوں کی بیماری کے باعث اس دنیا سے رخصت ہوگئے، لیکن اُن کا فن، ان کے جملے، اور اُن کا منفرد انداز آج بھی دلوں میں زندہ ہے۔
جب ایک بھارتی کامیڈین، جو آج کے جدید دور کا چہیتا ہے، کسی پاکستانی لیجنڈ کو اپنا استاد مانے، تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سچا فنکار قوموں کا نہیں، انسانیت کا ہوتا ہے۔ امان اللہ خان وہ ہنر مند تھے جنہوں نے لفظوں سے خوشی بانٹی، چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں، اور مزاح کو ایک باوقار فن کے طور پر پیش کیا۔