برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق اولیور ایک نہایت نایاب موروثی بیماری ہنٹر سنڈروم (ایم پی ایس 2) کا شکار تھا جو جسم اور دماغ کو بتدریج متاثر کرتی ہے۔
اس مرض کے شدید ترین کیسز میں مریض عموماً 20 سال کی عمر سے قبل ہی جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور اسے بعض ماہرین بچوں کی ڈیمینشیا سے بھی تشبیہ دیتے ہیں۔
جینیاتی نقص کی وجہ سے اولیور کا جسم وہ اہم انزائم تیار نہیں کر پا رہا تھا جو خلیوں کی صحت برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
برطانیہ کے شہر مانچسٹر کے طبی ماہرین نے دنیا میں پہلی مرتبہ اس بیماری کی پیش رفت روکنے کے لیے جین تھراپی کے ذریعے اس کے خلیوں میں تبدیلی کی۔
رائل مانچسٹر چلڈرنز ہاسپٹل میں جاری اس تاریخی تجربے کی نگرانی پر مامور پروفیسر سائمن جونز نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ میں 20 سال سے اس لمحے کا انتظار کر رہا تھا کہ ہنٹر سنڈروم کا کوئی بچہ اتنی تیزی سے بہتر ہوتا دکھائی دے یہ ناقابلِ یقین ہے۔
اولیور اس تجرباتی علاج کے لیے منتخب ہونے والے دنیا کے صرف پانچ بچوں میں سے پہلا ہے۔
کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے اس بچے کے خاندان نے امید کے ساتھ اس انقلابی علاج پر بھروسہ کیا اور آج ایک سال بعد اولیور کی نشوونما تقریباً عام بچوں کی طرح دکھائی دے رہی ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر نتائج اسی رفتار سے برقرار رہے تو یہ علاج مستقبل میں ہنٹر سنڈروم سمیت متعدد موروثی بیماریوں کے علاج میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔