نئی امید

چند دن پہلے چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی جو ان دنوں قائم مقام صدر بھی تھے، نے ملتان میں ایک نئی ایئر لائن کا افتتاح کیا۔ اس ایئر لائن کی پہلی پرواز ملتان سے کراچی کے لیے ہوئی۔ یہ ایئر لائن جلد ہی اپنا نیٹ ورک ملک کے دوسرے شہروں تک پھیلا رہی ہے جن میں لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد، سکھر، بہاولپور، سیالکوٹ، پشاور اور کوئٹہ شامل ہیں۔ 

اس کے علاوہ شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے فروغ کے لیے بھی یہ نیٹ ورک گلگت، سکردو، چترال کے لیے پروازیں شروع کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ، گوادر، تربت، پنجگور اور ژوب کے لیے ساؤتھ ایئر کی پروازیں جلد شروع ہو جائیں گی۔

فضائی صنعت سے متعلق افراد کا کہنا ہے کہ نئی ایئر لائن کا آغاز محض ایک کارپوریٹ قدم نہیں بلکہ یہ ایئرلائن پاکستان کی فضائی دنیا کے لیے نئی امید کا دروازہ ہے۔ قومی سطح کی یہ نئی ایئرلائن نہ صرف یہ کے بڑے شہروں کو آپس میں ملانے کے لیے کوشاں ہے بلکہ چھوٹے اور دوردراز علاقوں کے فضائی خاکے میں بھی نیا رنگ بھرنے کا عزم رکھتی ہے۔

پاکستان میں فضائی سفر کی تاریخ کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں طویل عرصے سے فضائی سفر چند بڑی ایئرلائنز تک محدود رہا ہے ۔ نجی ایئرلائنز نے مختلف ادوار میں مالی، انتظامی اور عملی مشکلات کا سامنا کیا ہے جس کے نتیجے میں اندرونی فضائی نیٹ ورک سکڑتا گیا۔ ایسے ماحول میں کسی نئی ائر لائنکا آغاز صرف ایک کاروباری قدم نہیں بلکہ ملکی کنیکٹیویٹی کو بہتر بنانے کی ایک اہم کوشش ہے۔

پاکستان کے کاروباری طبقے کو اپنے کاروبار اپنے ملک میں کرنے چاہیے ، اس کے لیے حکومت اچھی معاشی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مختلف شعبوں میں مقامی سرمایہ کار آگے بڑھتے ہوئے ترقی کے عمل کو تیز کریں۔

ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں ایک عام پاکستانی نے معمولی حیثیت سے کاروبار کا آغاز کیا اور رب کریم کی عنایت خصوصی اور شب و روز محنت کے بعد ان کے پاس ایسے وسائل آگئے ہیں کہ وہ اپنا سرمایہ بیرون ملک لگانے کے قابل ہوئے اور کئی ایسے ہیں جھنوں نے بیرون ملک سرمایہ لگانے کے بجائے ایک کنسورشیم کے ذریعے اپنے کاروبار کو پاکستان کے اندر فروغ دینے کی کوشش کی۔

حال ہی میں انھیں پاکستان کی پارلیمنٹ نے ایک قانون کے ذریعے پاکستان میں پہلی ’’نیشنل یونیورسٹی آف سیکیورٹی سائنسز‘‘ کے قیام کی اجازت بھی دی ہے۔

پاکستان میں شروع ہونے والی کسی بھی ایئرلائن کا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ مسافروں کو سستا فضائی سفر مہیا کرنے کی کوشش کرے، چھوٹے شہروں کے درمیان فضائی رابطے بحال کرنا اور خصوصی طور پر کم ترقی یافتہ علاقوں جیسے بلوچستان، جنوبی پنجاب اور اندرونِ سندھ تک ’’بجٹ ایئر‘‘ کی رسائی کو ممکن بنانا بہت ضروری ہے۔

اس طریقے سے روزگار کے نئے مواقع فراہم پیدا ہوں اور مسافروں کو ایسے شہروں تک سفری سہولت حاصل ہوجائے گی جہاں سڑک کے سفر میں کئی گھنٹے یا بعض جگہوں پر کئی دن لگتے ہیں، فضائی سفر کا پھیلاؤ علاقائی عدم مساوات کم کر سکتاہے۔

ان چیلنجز سے کامیابی سے نمٹا جائے تو یہ پاکستان کی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر ایئرلائنز اپنے نیٹ ورک کو متوازن، کرایوں کو مناسب اور سروس کو معیاری رکھتی ہیں تو یہ ملک کے دور دراز شہروں کے لیے ترقی کی نئی راہیں کھول سکتی ہیں۔
 

Similar Posts