وہ عہد جس میں رعایا براہِ راست خلیفہ سے سوال کرتی اور خلیفہ جواب دیتا تھا۔ ایسا جواب جو صرف الفاظ کا نہیں بلکہ کردار کا بوجھ اٹھائے ہوتا تھا۔حضرت عمر فاروقؓ کی حکومت ایک ایسی فلاحی سلطنت کی مثال تھی جس میں حکمران اپنے آپ کو رعایا کا امین سمجھتا تھا اور امانت کے تصور میں کسی قسم کی لغزش ناقابلِ معافی جرم شمار ہوتی تھی۔ عمرؓ کے عہد میں قانون کی حکمرانی محض دستوری جملہ نہ تھی بلکہ عملی زندگی کی نبض میں دوڑتی ہوئی روح تھی۔
اس قانون کی شان یہ تھی کہ قبیلے کی بڑائی، منصب کی بلندی یا نسل و نسب کی عظمت اس کے سامنے ریزہ ریزہ ہو کر گرتی تھی۔ سب سے بڑی مثال مکہ کی وہ گلیاں ہیں جہاں ایک دن گورنر کے بیٹے کو سزا دی گئی۔ وہ گورنر جس کے رتبے کے سامنے عام لوگ جھک جایا کرتے تھے مگر خلیفہ وقت کے نزدیک وہ بھی رعایا کے برابر تھے۔ اس واقعے نے بتا دیا کہ اسلامی ریاست میں کسی کا مقام جرم کے وزن کو کم نہیں کرتا اور نہ رشتے انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
یہی اصول تاریخ کے ایک اور صفحے پر اُس وقت رقم ہوا جب مصر کے گورنر کے بیٹے نے ایک قبطی شہری پر ظلم کیا اور وہ شہری انصاف کی طلب میں مدینہ پہنچا۔ حضرت عمرؓ نے نہ گورنر کا عہدہ دیکھا نہ اس کے بیٹے کا مقام ۔ انھوں نے قبطی کے ہاتھ میں کوڑا تھمایا اور ظلم کرنے والے پر برسانے کا حکم دے کر فرمایا کہ تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا لیا جب کہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد جنا تھا۔
شاید یہی وہ لمحہ تھا جب دنیا کو پہلی بار سمجھ آیا کہ عدل ریاستوں کو فتح کرتا ہے تلواریں نہیں۔عدل کا یہ معیار رشتہ داریوں اور شخصیات کے طلسم سے بھی آزاد تھا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ہی بیٹے پر قصاص کا حکم لگا کر دنیا کو بتایا کہ باپ کا رتبہ مسلمان کی جان کے سامنے کچھ نہیںہے۔ اگرچہ صحابہؓ کی مشاورت سے فیصلہ مؤخر ہوامگر اصول وہیں قائم رہا۔ کوئی شخص خواہ خلیفہ کا جگرگوشہ ہو قانون کی حدود سے ہر گزباہر نہیںتھا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کی معزولی بھی اسی اصولی روشنی کا مینار ہے۔ اس فیصلے کے پیچھے یہ خواہش نہیں تھی جو بادشاہوں میں ہوتی ہے کہ طاقت ور جرنیلوں کو راستے سے ہٹا دیا جائے بلکہ یہ ایک لطیف مگر مضبوط اصول تھا کہ ریاست ایک فرد کی کامیابیوں کی مرہونِ منت نہیں ہونی چاہیے ۔ یہی اصول حکمران کے اندر عدل کی وہ حرارت جگا سکتا ہے جس سے ریاستیں صدیوں تک روشن رہتی ہیں۔
جس ریاست میں حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ہو، اپنے آپ کو رعایا کا خادم سمجھتا ہو، یہ ریاست مدینہ تھی ۔ قحط کے دنوں میں جب بچے بھوک سے بلبلاتے تھے، عمرؓ نے بھی روٹی اورگوشت چھوڑ دیا، وہ کہتے تھے کہ رعایا بھوکی ہو اور میں پیٹ بھر کر سو جاؤں، یہ انصاف نہیں۔ ایک رات ایک عورت کی ہانڈی میں پتھر ابلتے دیکھے تو ساری رات نیند نہ آئی۔
بیت المال سے آٹا اٹھایا مگر خادم سے کہا کہ بوری خود اٹھاؤں گا، قیامت کے دن جواب بھی تو مجھے ہی دینا ہے۔یہ وہ حکمرانی تھی جس میں طاقت کا مرکز قصرِ خلافت نہیں بلکہ عوام کا دکھ تھا۔حضرت عمرؓ نے گورنروں کا جو احتساب قائم کیا وہ دنیا کے بڑے سیاسی نظاموں کے لیے آج بھی ایک معمہ ہے۔ گورنروں کو حکم تھا کہ تحفے قبول نہ کریں، محل نہ بنائیں، عوام سے فاصلہ نہ رکھیں اور اگر کسی شکایت کی بو بھی آئے تو خلیفہ خود تحقیق فرماتے۔ گورنروں کے اثاثوں کا حساب رکھا جاتا، انھیں تنبیہ کی جاتی کہ منصب عبادت کی طرح پاکیزہ ہونا چاہیے۔
اس احتساب نے ریاست کی جڑوں کو اتنا مضبوط کیا کہ فتوحات کے باوجود کہیں بھی بدعنوانی کی جرات پیدا نہ ہو سکی۔ریاستی فیصلوں میں مشاورت کی روش بھی حضرت عمرؓ کا امتیازی وصف تھی۔ وہ اہل الرائے صحابہؓ کو جمع کرتے، ان کی رائے سنتے ۔ حکمرانی کے اسی اصول نے اسلامی ریاست کے انتظام کو نہ صرف وسعت دی بلکہ استحکام بھی عطا کیا۔
معاشرتی، انتظامی اور اقتصادی عدل کا یہ امتزاج اس دور کو ایسا نمونہ بناتا ہے جس میں حکمران اور رعایا ایک ہی قانون کے تابع تھے۔
یہ سب واقعات اس بات کی گواہی ہیں کہ حضرت عمرؓ کا عہد صرف تاریخ کا روشن باب نہیں بلکہ حکمرانوں کے لیے ایک آئینہ ہے ۔ عمرؓ نے ثابت کیا کہ ریاستیں افراد کے دم سے نہیں، اصولوں کے دم سے بنتی ہیں اور وہ اصول اگر عدل اور خوفِ خدا پر قائم ہوں تو زمانے کی گرد انھیں مٹا نہیں سکتی۔جہاں کسی بڑے کو معافی نہ ملے جہاں قانون کو ذات پر مقدم اور عدل کو تعصب سے پاک رکھا جائے ۔ عوام کو اپنی ذمے داری سمجھے تو شاید انسانیت پر انصاف کا وہی سورج دوبارہ طلوع ہو جائے جو کبھی مدینہ کی فضا میں دمکتا تھا۔