کیونکہ مسلم لیگ ن کے مدمقابل کوئی اورجماعت نہیں بلکہ خود ان کا مقابلہ اپنے آپ ہی سے تھا ،ایک کھلا میدان مسلم لیگ ن کو ملا جہاں ان کے مقابلے میں ان کے سیاسی حریف نہیں تھے، محض دو نشستوں پر لاہور اور ہری پور میں ان کا مقابلہ پی ٹی آئی سے تھا کیونکہ پی ٹی آئی نے باقی تمام نشستوں پر انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور یوں مسلم لیگ ن کو سیاسی واک اور مل گیا تھا جو ان کی جیت کو یقینی بنانے کے لیے کافی تھا۔یہ الگ بات ہے ہری پور کی اہم نشست بھی پی ٹی آئی ہار گئی یا اس کے بقول اسے ہرا دیا گیا اور وہاں پی ٹی آئی کی شکست نے اسے سیاسی دھچکا بھی دیا ۔لیکن پی ٹی آئی کو مجموعی طور پر ان ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ سے کیا فائدہ ہوا، اس کا ان کو ضرور تجزیہ کرنا چاہیے۔
کیونکہ ماضی میں بھی جو بھی جماعتیں اوپر سے لے کر نیچے تک کے انتخابات کا بائیکاٹ کرتی رہی ہیں، اس کا ان جماعتوں کو سیاسی نقصان کے سوا کچھ نہیں ملا۔یقیناً پی ٹی آئی کے لیے حالات سازگار نہیں تھے اور نہ ان کو سیاسی راستہ دیا جا رہا ہے مگر اس کے باوجود انتخابات کا میدان کھلا چھوڑنا پارٹی کی سیاست کو نقصان ہی پہنچاتا ہے ۔اس لیے مستقبل کی سیاست میں عملی طور پر پی ٹی آئی کو انتخابی بائیکاٹ یا مخالفین کے لیے میدان کھلا چھوڑنے کی حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے۔کیونکہ حالات کتنے بھی برے کیوں نہ ہوں میدان الیکشن کو کھلا چھوڑنا درست حکمت عملی نہیں کہی جا سکتی۔
لیکن ایک اہم بات یہ دیکھنے کو ملی مسلم لیگ ن کو کھلا یا خالی میدان ملنے کے باوجود ووٹر ٹرن آوٹ بہت ہی مایوس کن رہا۔اگرچہ عمومی طور پر ضمنی انتخابات میں عام انتخابات کے مقابلے میں ووٹر ٹرن آوٹ کم ہی ہوتا ہے مگر اس بار اس حد تک مایوس کن ٹرن آوٹ نے ان ضمنی انتخابات کے رنگ یا اس کی ساکھ کو پھیکا کیا ہے۔ لاہور کے انتخابات کا ٹرن آوٹ تو بہت ہی کم تھا مگر پھر ایک جادوئی عمل سے ٹرن آوٹ کی سطح پر اچانک اضافے نے انتخابی ساکھ کو بھی چیلنج کیا۔
مسلم لیگ ن جس کے مقابلے میں نہ تو کوئی مخالف بڑی جماعت تھی اور نہ ہی آزاد بنیاد پر کوئی مضبوط امیدوار لیکن اس کے باوجود اس کا حد سے بڑھتا ہوا انتظامیہ،پولیس اور الیکشن عملہ پر انحصار یا ان کی مداخلت کے کھیل نے بھی الیکشن کی ساکھ پر سوالات اٹھائے ہیں ۔ شفافیت کے ساتھ انتخابات کا نہ ہونا الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوالات کو کھڑا کرتا ہے ۔ووٹر ٹرن آوٹ کی چار وجوہات ہوسکتی ہیں۔اول، لوگوں کو لگتا ہے کہ انتخابات کی شفافیت محض ایک نعرہ ہے ۔
کیونکہ انتخابات سے پہلے ہی یہ طے ہوجاتا ہے کہ جیت کس کی ہوگی اور کسے ہارنا ہے۔ جو ووٹروں کو موجودہ انتخابی نظام سے مایوس یا لاتعلق کرتا ہے ۔دوئم، ووٹروں میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کے پاس عوامی مسائل کا کوئی حل نہیں ہے اور طاقت کے دائرہ کار تک محدود یا طاقت ور لوگوں کی جنگ میں عام آدمی کا ہمیں کوئی حصہ نظر نہیں آتا۔یہ اگر سوچ اور فکر درست ہے تو پھر سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کی اہمیت کم ہورہی ہے اور وہ عوامی سطح پر اپنے مقدمہ کو ہار رہی ہیں ۔سوئم، کیونکہ ان ضمنی انتخابات میں حکومت کے سیاسی مخالفین حصہ نہیں لے رہے تھے تو پھر ووٹروں کی طرف سے بھی ہمیں مقابلہ بازی یا انتخابی مہم دیکھنے کو نہیں ملی اور نہ ہی سیاسی جماعتوں بشمول حکومتی جماعت نے کوئی باقاعدہ بڑی انتخابی مہم چلائی اور ان کو لگتا تھا کہ سیاسی میدان ہم نے ہی جیتنا ہے اس لیے پرجوشیت کیوں دکھائی جائے۔
چہارم، لوگوں یا سیاسی کارکنوں میں یہ احساس بھی دیکھنے کو ملا کہ سیاسی جماعتوں نے پارٹی ٹکٹ پہلے سے ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی کے بیٹوں،بیٹیوں، بیوی ،بھائی یا دیگر رشتہ داروں میں بانٹ دیے اور ان کو کوئی پارٹی کا سرگرم کارکن نہیں ملا جسے وہ پارٹی ٹکٹ دیتے۔ خاندانی بنیاد پر سیاست ،جمہوریت اور انتخابات کے کھیل نے خود پارٹی کی سطح پر بہت سے لوگوں میں مایوسی پیدا کی ہے اور ان کولگتا ہے کہ ان کی حیثیت محض نعرے لگانے یا ووٹ ڈالنے تک یا لیڈروں کی خوشامد تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔پنجاب کے ان ضمنی انتخابات میں ایک طرف محض ایک سیٹ کے سوا پی ٹی آئی کا بائیکاٹ تھا مگر دوسری جماعتوں کا بھی کوئی کردار دیکھنے کو ہی نہیں مل سکا۔پیپلز پارٹی نے جو ایک واحد نشست جیتی وہ بھی حکمران اتحاد کے تعاون سے۔ پی ٹی آئی کی غیر موجودگی کے باوجود پی پی پی کوئی موثر سیاسی حکمت اختیار نہیں کرسکی۔
اسی طرح مسلم لیگ ق ، جماعت اسلامی نے بھی عملا ان ضمنی انتخابات میں لاتعلقی یا بائیکاٹ کا رویہ ہی اختیار کیا۔ پی ٹی آئی کے علاوہ ان دیگر جماعتوں نے بھی مسلم لیگ ن کے لیے کھلا میدان چھوڑا اور اس کا تمام تر فائدہ مسلم لیگ ن نے ہی اٹھایا۔ اگرچہ مسلم لیگ ن اس جیت کو پنجاب میں ہونے والے ترقیاتی کاموں سے جوڑتی ہے اور وہ اسے اپنی بڑی کامیابی کے طورپر پیش کرتی ہے۔مگر جب تک پی ٹی آئی کو سیاسی راستہ دیگر جماعتوں کی طرح برابری کی بنیاد پر نہیں ملے گا، اس وقت تک مسلم لیگ ن کی جیت کو یکطرفہ جیت ہی کہا جاسکتا ہے ۔ پنجاب میں ضمنی انتخابات بھی دفعہ 144کے تحت ہوئے ہیں اور کسی کو بھی جلسے جلوس کی اجازت نہیں دی گئی جو خود ایک خوف کی علامت کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ ایک طرف سیاسی مخالفین کا نہ ہونا اور دوسری طرف الیکشن کمیشن کا طرزعمل اور کم ٹرن آوٹ کمزور سیاست کے بہت سے پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے ۔
جمہوریت کی بنیادی کامیابی بڑی تعداد میں لوگوںکی سیاسی عمل میں شمولیت ،شراکت اور بطور ووٹر یا آزادانہ بنیادوں پر سب کے لیے ایک جیسا سازگار حالات سے جڑا ہونا ہے ۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ حکومت یا سیاسی جماعتیں لوگوں کو سیاست سے دوری کی طرف لے جا رہی ہیں ۔کیونکہ حکومت بڑے پیمانے پر لوگوں کی سیاسی نظام میں عملا شرکت کی حامی نہیں اور کم ٹرن آوٹ یا لوگوں کا سیاسی اور جمہوری نظام سمیت انتخابی نظام سے لا تعلق ہونا بھی ان کے لیے کوئی بڑی پریشانی پیدا نہیں کرتا اور وہ اسی میں خوش ہے کہ طاقت کے مرکز کا کھیل اس کے گرد گھومتا ہے ۔
دوسری بنیادی بات سیاسی جماعتیں یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ سیاست اور جمہوریت وہیں لوگوں میں اپنی ساکھ قائم کرتی ہیں جہاں وہ لوگوں کو ان کے مسائل کے حل میں ڈیلیور کرتی ہیں ۔کیونکہ جمہوریت کی کامیابی کا تعلق حکومت اور اپوزیشن یا سیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے جڑی ہوتی ہے مگر اس میدان میں تمام سیاسی جماعتوںکا مقدمہ کمزور ہے ۔
آج بھی جو جمہوریت کا عمل یا شہری آزادیوں سمیت بنیادی حقوق کی نفی ہو رہی ہے اس پر سیاسی جماعتوں کی خاموشی یا سمجھوتے سمیت اس کھیل میں سہولت کاری کے عمل نے ملک میں سیاسی جماعتوں کے مقدمہ کو اور زیادہ کمزور کردیا ہے ۔ڈر یہ ہے کہ جس طریقے سے حکمران اس ملک میں جمہوری نظام یا انتخابات کے سیاسی کھیل کو عدم شفافیت کی بنیاد پر کھیل رہے ہیں یا معاشرے یا نظام حکومت کو مضبوط بنانے کی بجائے ذاتیات یا شخصی طرز کی سیاست کررہے ہیں اس سے لوگ اور زیادہ سیاست اور انتخابات سے لاتعلق ہوں گے ،جو جمہوریت کو نقصان پہنچانے کا مزید سبب بنے گا۔