اسلام آباد میں پاکستان بزنس کونسل کی جانب سے منعقدہ ’’ڈائیلاگ آن اکانومی‘‘ کے دوسرے روز ملکی ممتاز تاجروں اور صنعتکاروں سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے پاس واضح معاشی ترقی کا کوئی روڈمیپ موجود نہیں۔
انھوں نے تمام اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ وہ تحفظات اور سبسڈی پر مبنی نظام سے نکل کر برآمدات پر مبنی معاشی ترقی کے ماڈل پر اتفاق رائے پیدا کریں۔ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز احمد نے کہا کہ ’’ہم نے اپنی مالی صورتحال کو خود خراب کیا ہے۔
ہمارے پاس واحد حل ٹیکس لگانا ہے اور آپ سب سے آسان ہدف ہیں کیونکہ آپ پہلے ہی ٹیکس نیٹ میں ہیں۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ حکومت سنجیدگی سے کارپوریٹ سیکٹر پر ٹیکس کم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ خصوصی طور پر 29 فیصد کارپوریٹ انکم ٹیکس کو کم کرکے 25 فیصد کرنے، سپر ٹیکس کو ختم کرنے، انٹر کارپوریٹ ڈیویڈنڈ ٹیکس ختم کرنے پر بھی غور جاری ہے۔
جنرل سرفراز نے کہا کہ شرح سود کو بھی کم کیا جانا چاہیے کیونکہ افراط زر میں کمی کے باوجود 11 فیصد شرح سود برقرار رکھنا درست نہیں۔
انھوں نے مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت کو قابو میں رکھنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ایک حقیقت پسندانہ، مارکیٹ بیسڈ اور مسابقتی ایکسچینج ریٹ اپنانا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت وقتی طور پر مستحکم ہوئی ہے مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ ترقی کا کوئی واضح منصوبہ موجود نہیں۔
پاکستان کا موجودہ ماڈل صارفیت (Consumption) اور قرضوں پر مبنی ہے، جس سے بار بار ملک کو مالی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان کو اب ایک برآمدات پر مبنی معاشی ماڈل اپنانا ہوگا کیونکہ درآمدی متبادل نظام مسلسل ناکام ہو رہا ہے۔جنرل سرفراز نے پاکستانی تاجروں کی جانب سے بیرون ملک سرمایہ منتقل کرنے پر بھی تنقید کی۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں کمائی گئی دولت کا بڑا حصہ یو اے ای، لندن، سنگاپور اور نیویارک منتقل ہو جاتا ہے اور ملک میں دوبارہ سرمایہ کاری نہیں ہوتی۔
پاکستان میں غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (FDI) محض 1.2 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے جو بہت کم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جب تک مقامی کاروباری طبقہ خود پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا، غیر ملکی سرمایہ کار بھی نہیں آئیں گے۔
انھوں نے بتایا کہ ایس آئی ایف سی سعودی عرب سمیت دیگر ممالک سے سرمایہ کاری کے لیے ایک سنگل ونڈو پلیٹ فارم کے طور پر قائم کیا گیا تھا تاکہ منصوبوں کی منظوری کا عمل تیز کیا جا سکے۔