تاریخ گواہ ہے کہ وہ قومیں جنھوں نے عدل و انصاف کو اپنا شعار بنایا، ترقی و خوش حالی کے اعلیٰ درجے تک پہنچ گئیں، اور وہ قومیں جنھوں نے ظلم، ناانصافی اور جبر کو اپنی روش بنا لیا، بالآخر ذلت و تباہی کا شکار ہوگئیں۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو سراسر عدل، رحمت اور انسانیت کا علم بردار ہے۔
اسلام میں عدل و انصاف کی اہمیت
قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر عدل کی تاکید کی گئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، مفہوم:
’’بے شک! اﷲ تعالیٰ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔‘‘ (النحل)
یہ آیت اسلامی معاشرتی نظام کی بنیاد ہے۔ عدل صرف عدالتوں یا حکم رانوں تک محدود نہیں بلکہ ہر فرد کی زندگی کا اصول ہے۔ کسی کی حق تلفی، جھوٹا الزام، ناپ تول میں کمی، یا کسی کم زور پر طاقت کے زور سے دباؤ ڈالنا، یہ سب ظلم کی صورتیں ہیں جنھیں اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ظلم سے بچو، کیوں کہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی شکل میں ظاہر ہوگا۔‘‘ (صحیح بخاری) اس ارشادِ نبوی ﷺ سے واضح ہوتا ہے کہ ظلم نہ صرف دنیا میں فساد و تباہی لاتا ہے بلکہ آخرت میں بھی سخت وبال کا باعث بنے گا۔
ظلم کی مختلف صورتیں:
ظلم محض کسی کو جسمانی نقصان پہنچانا نہیں بلکہ اس کی کئی صورتیں ہیں۔
معاشی ظلم: جب دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جائے، مزدور کا حق دبایا جائے، یا زکوٰۃ و صدقات کے نظام کو نظر انداز کیا جائے تو یہ ظلم کی ایک بڑی شکل ہے۔
سماجی ظلم: ذات پات، نسل، رنگ یا زبان کی بنیاد پر تفریق پیدا کرنا، خواتین یا اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کرنا بھی ظلم ہے۔
سیاسی ظلم: جب حکم ران اپنی طاقت کو عوام کے مفاد کے بہ جائے اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کریں، قانون کو کم زور کے خلاف اور طاقت ور کے حق میں موڑ دیں، تو یہ بدترین ظلم ہے۔
روحانی ظلم: جب انسان اپنے خالق کی بندگی چھوڑ کر گناہوں، بدعات یا الحاد میں مبتلا ہو جائے، تو یہ بھی ظلم کی انتہا ہے، کیوں کہ قرآن کے مطابق: ’’شرک ظلم عظیم ہے۔‘‘
ظلم کے معاشرتی اثرات
ظلم ایک معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ جب کسی قوم میں انصاف ختم ہو جاتا ہے تو وہاں اعتماد، محبت اور بھائی چارہ مٹ جاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں، اور نظامِ زندگی بکھر کر رہ جاتا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ روم، فارس، اور اندلس جیسی طاقت ور سلطنتیں ظلم و ناانصافی کے سبب ہی زوال پذیر ہوئیں۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا فرمان ہے
’’ریاست کفر کے ساتھ باقی رہ سکتی ہے، لیکن ظلم کے ساتھ نہیں۔‘‘
یہ جملہ اسلامی سیاسی فکر کی اساس ہے۔ ایک معاشرہ اگر عدل پر قائم ہو، تو چاہے اس کے لوگ اخلاقی طور پر کم زور کیوں نہ ہوں، وہ کچھ نہ کچھ دیر تک باقی رہتا ہے، لیکن جہاں ظلم رائج ہو وہاں تباہی لازم ہے۔
اسلامی معاشرت کا اصول، عدل و احسان
اسلام نے ایک متوازن معاشرہ قائم کرنے کے لیے عدل کے ساتھ احسان کا بھی حکم دیا۔ عدل کا مطلب ہے کہ ہر شخص کو اس کا حق دیا جائے، اور احسان کا مطلب ہے کہ اس سے بڑھ کر بھلائی کی جائے۔ اگر کسی کے ساتھ ناانصافی ہو تو معاشرہ اس کا مداوا کرے، اور اگر کسی کے ساتھ ظلم ہُوا ہو تو ریاست اور فراہمی انصاف کے ادارے اس کے دفاع کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
قرآن میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’اور ظالموں کی طرف جھکاؤ مت رکھو، ورنہ تمہیں آگ چُھو لے گی۔‘‘ (ہود) یہ آیت نہایت واضح پیغام دیتی ہے کہ ظلم کے خلاف خاموش رہنا بھی گناہ ہے۔ معاشرے میں ظلم اس وقت بڑھتا ہے جب لوگ اسے روکنے کے بہ جائے برداشت کرنے لگتے ہیں۔
اسلام صرف انفرادی عبادت کا نہیں بلکہ اجتماعی ذمہ داری کا بھی دین ہے۔ جب کوئی شخص ظلم کرتا ہے، تو اگر باقی لوگ خاموش رہیں، تو وہ بھی اس ظلم میں شریک سمجھے جاتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اگر تم کسی ظالم کو ظلم کرتے دیکھو اور اس کا ہاتھ نہ روکو تو اﷲ تم سب کو ایک عذاب میں مبتلا کر دے گا۔‘‘ (ترمذی)
یہی وجہ ہے کہ اسلام میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر یعنی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا تصور دیا گیا ہے۔ اگر یہ جذبہ ختم ہو جائے تو ظلم خود بہ خود عام ہو جاتا ہے۔
آج کی دنیا میں ظلم کی صورتیں پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہوگئی ہیں۔ طاقت ور طبقات نے قانون، ذرائع نشر و اشاعت اور معیشت پر قبضہ کر رکھا ہے، عام آدمی کے لیے انصاف حاصل کرنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ ممالک میں طاقت ور حکم ران اپنے مخالفین کو خاموش کرانے کے لیے ظلم و جبر کا سہارا لیتے ہیں۔ کارپوریٹ نظام میں غریب مزدور کی محنت کا صلہ نہیں ملتا، جب کہ چند لوگ اربوں روپے کما لیتے ہیں۔ نشر و اشاعت کے ادارے سچائی کے بہ جائے مفادات کی زبان بولتے ہیں، جو ظلم کی ایک نئی شکل ہے۔ خواتین، اقلیتیں اور نادار طبقات آج بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ اسلامی معاشرہ ان سب ناانصافیوں کے خلاف کھڑا ہونے کا مطالبہ کرتا ہے۔ عدل و انصاف قائم کرنے کے قرآنی اصول قرآن مجید نے عدل کے قیام کے لیے چند بنیادی اصول بیان کیے ہیں: مفہوم: ’’اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہنے والے بنو، اﷲ کی خاطر گواہی دو، اگرچہ اپنے آپ یا والدین یا رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (النساء)
حکومت کی ذمہ داری
مفہوم: ’’بے شک! اﷲ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل کے سپرد کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرو تو عدل سے کرو۔‘‘ (النساء)
طاقت ور اور کم زور کے درمیان مساوات
نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اگر فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا۔‘‘ (بخاری) یہ مثال اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام میں قانون سب کے لیے برابر ہے۔
ظلم کے خاتمے کے لیے صرف باتیں کافی نہیں بلکہ عملی اقدامات ضروری ہیں۔
تعلیم اور شعور کی بیداری سب سے پہلا قدم ہے۔ جب لوگ اپنے حقوق اور دوسروں کے حقوق پہچانیں گے تو ظلم کم ہوگا۔ عدالتی نظام کو مضبوط بنانا ضروری ہے تاکہ کسی مظلوم کو انصاف کے لیے سال ہا سال انتظار نہ کرنا پڑے۔ علماء، ادیبوں، سماجی و سیاسی راہ نماؤں، دانش ور اور صحافیوں کو سچ بولنے کا حوصلہ رکھنا چاہیے۔ ہر فرد کو اپنے دائرۂ اختیار میں انصاف اور دیانت کو اپنانا چاہیے۔ ظلم پر خاموشی بھی جرم ہے۔ جب ہم ظلم کو دیکھ کر چپ رہتے ہیں، تو ہم دراصل ظالم کے حامی بن جاتے ہیں۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ایمان کی علامت ہے۔
اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہی ہے کہ ’’معاشرہ ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتا۔‘‘ ظلم بالآخر تباہی ہی لاتا ہے۔ عدل و انصاف پر قائم معاشرہ ہی پائیدار ہوتا ہے، جہاں ہر شخص کو برابری، احترام اور امن میسر ہو۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بنے، تو ہمیں ظلم کے خلاف کھڑے ہونا ہوگا۔ عدل و احسان کا نظام قائم کرنا ہی اسلام کی روح ہے، اور یہی کام یابی کا راستہ ہے۔ مفہوم: ’’اے ایمان والو! اﷲ کے لیے انصاف پر مضبوطی سے قائم رہو، اور عدل کی گواہی دو۔‘‘ (المائدہ) اسلام نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی دعوت دی ہے جو عدل، رحم، اور برابری پر قائم ہو۔ اگر ہم قرآن و سنت کے اصولوں کو اپنالیں تو نہ صرف ظلم ختم ہو سکتا ہے بلکہ دنیا میں حقیقی امن قائم ہو سکتا ہے۔