اپنے بچوں کو قتل کرکے فرار ہونے والی ماں کی گرفتاری سے سزا تک کی حیران کن کہانی

نیوزی لینڈ کی عدالت نے جنوبی کوریا میں پیدا ہونے والی ہاکیونگ لی کو اپنے دو کم سن بچوں کے قتل کے جرم میں سزا سنادی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق سفاک ماں نے 2018 میں اپنے 8 اور 6 سالہ بچوں کو دوا کی زیادہ مقدار دیکر جان بوجھ کر قتل کیا۔

قتل کے بعد ملزمہ نے بچوں کی لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ کر سوٹ کیسوں میں رکھا اور ایک اسٹوریج لاکر میں چھوڑ دیا۔

بچوں کے بہیمانہ قتل سے ایک سال قبل ہی ملزمہ کے شوہر اور بچوں کے والد کا کینسر سے انتقال ہوگیا تھا۔

ان دونوں معصوم بچوں کی لاشیں قتل کے چار سال بعد 2022 میں اس وقت دریافت ہوئیں جب ایک خاندان نے آن لائن نیلامی سے اسٹوریج لاکر خریدا۔

جب اسٹوریج کو کھولا تو اس میں موجود سوٹ کیسوں میں انسان کی گلی سڑی باقیات تھیں۔ پولیس کو اطلاع دی گئی۔

بچوں کی باقیات ملنے کے بعد نیوزی لینڈ پولیس نے 2022 میں قتل کی تحقیقات شروع کیں لیکن تب تک ملزمہ آبائی ملک جاچکی تھی۔

جس پر نومبر 2022 میں نیوزی لینڈ نے جنوبی کوریا سے ملزمہ کی حوالگی کے لیے مقدمہ بھی کیا تھا۔

جس کے نتیجے میں ملزمہ ہاکیونگ لی کو جنوبی کوریا سے لاکر نیوزی لینڈ میں مقدمہ چلایا گیا۔

ملزمہ نے عدالت میں خود کو پاگل پن کا مریض قرار دیکر معافی کی درخواست کی تھی۔

ان کے وکیل نے بھی سزا کے تعین کی سماعت میں دفاعی دلیل دی کہ ملزمہ کی ذہنی حالت کے پیش نظر عمر قید ناانصافی ہوگی۔

تاہم پراسیکیوشن نے موقف اختیار کیا کہ قتل کے وقت ملزمہ کے خودکشی یا شدید ذہنی عدم توازن کے ثبوت موجود نہیں تھے۔

جج جیوفرے ویننگ نے کم سزا کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ جانتی تھیں کہ آپ کا جرم اخلاقی طور پر غلط تھے۔

جج نے مزید کہا کہ شاید آپ اپنے بچوں کو اپنی سابقہ خوشگوار زندگی کی یاد کے طور پر برداشت نہیں کر پا رہی تھیں۔

عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے ملزمہ کو عمر قید کی سزا دی جس میں 17 سال کی کم از کم غیر مشروط قید شامل ہے۔

یاد رہے کہ نیوزی لینڈ میں 1989 سے موت کی سزا ختم کردی گئی ہے جس کے بعد سے عمر قید سب سے سخت سزا ہے۔

عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ ملزمہ کو پہلے ایک نفسیاتی مرکز میں علاج فراہم کیا جائے گا اور صحت یاب ہونے کے بعد واپس جیل بھیج دیا جائے۔

Similar Posts