کے پی میں گورنر راج ؟، ایک جائزہ

کے پی میں گورنر راج کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ حکومت نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ وہ کے پی میں گورنر راج لگانے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ مقتدرہ سے بھی گورنر راج کے حق میں آوازیں آرہی ہیں۔ کچھ نام بھی سامنے آئے ہیں۔ میری نظر میں ناموں میں کیا رکھا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا گورنر راج لگایا جا رہا ہے کہ نہیں۔ کیا یہ صرف دھمکی ہے یا واقعی سنجیدگی سے کوئی بڑا فیصلہ ہو رہا ہے۔

بانی کی بہنوں کے بھارتی میڈیا کو متنازعہ انٹرویو نے بھی ماحول کو کافی خراب کر دیا ہے۔مماثلت قائم کی جا رہی ہے کہ ماضی میں بانی ایم کیو ایم نے بھارت نوازی شروع کی تھی تو ریاست نے معاف نہیں کیا۔ اب بھی بھارت نوازی کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ ریاست نے 1971سے کافی سبق سیکھا ہے۔ اس میں ایک یہ بھی ہے کہ بھارت نوازی کو پہلے قدم پر ہی ختم کر دیا جائے۔ اگر تحریک انصاف کی قیادت بھی بھارت کے کندھوں پر بیٹھ کر آنا چاہتی ہے تو یہ گھوڑا ورگھوڑے کا میدان۔ پھر انھیں بھارت کی نظر سے ہی دیکھا جائے گا۔

ایک رائے یہ ہے کہ کے پی کے نئے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ورکنگ ریلشن شپ قائم کرنے کی کافی کوشش کی گئی۔ پہلے وزیر اعظم نے انھیں مبارکباد کا فون کیا۔ جس کا بھی سوشل میڈیا پر مذاق بنایا گیا۔ بعد میں کور کمانڈر پشاور انھیں ملنے ان کے دفتر گئے۔ یہ دونوں کوششیں ان کے ساتھ چلنے کے لیے کی گئیں۔

تا ہم دونوں کا کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ لیکن رائے یہ ہے کہ ملاقات نہ کروانے کی وجہ سے سارے مسائل ہوئے ہیں۔ اگر ضد نہ کی جاتی ایک ملاقات کروا دی جاتی تو شاید حالات نارمل ہو جاتے۔ لیکن دوسری طرف کا موقف ہے کہ یہ کارڈ اور بہانہ بہت پرانا ہوگیا ہے۔ کئی دفعہ سیاسی ملاقاتیں کروائی گئی ہیں۔ لیکن کوئی بہتر صورتحال سامنے نہیں آئی ہے۔ اس لیے سیاسی ملاقاتیں بند ہیں۔ کسی بھی قیدی کو سیاسی ملاقات کی اجازت نہیں۔ اس لیے بانی کو بھی نہیں۔ غیر سیاسی ملاقات کا کوئی نام سامنے نہیں۔

ایک طرف تحریک انصاف اور بالخصوص وزیر اعلیٰ کے پی نے منگل کو اڈیالہ کے باہر احتجاج کا اعلان کیا ہوا ہے۔ پورے ملک سے لوگوں کو اکٹھا کر کے اڈیالہ کے باہر جمع کرنے کے لیے مہم چلائی جا رہی ہے ۔ منگل کو اڈیالہ کے باہر کیا ہوگا۔ اگر لوگ زیاد ہ آگئے تو امن و امان کا مسئلہ بھی بن سکتا ہے۔

تصادم کی صورتحال ہو سکتی ہے۔ تحریک تحفظ آئین کے سربراہ محمود خان اچکزئی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہم سب کو اڈیالہ پر حملہ کر کے بانی کو چھڑا لینا چاہیے۔ بہر حال اڈیالہ کے باہر دھرنا ایک چیلنج بن سکتا ہے۔لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ دو دھرنے ہو چکے ہیں۔

علیمہ خان نے کئی گھنٹے کا دھرنا دیا ہے۔ وزیراعلیٰ کے پی نے بھی کئی گھنٹوں کا دھرنا دیا۔ کچھ نہیں ہوا۔ لیکن تب ان کے ساتھ لوگ نہیں تھے۔ اسی لیے تو لوگوں کو لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیونکہ لوگوں کے بغیر دھرنے کا کوئی وزن نہیں۔ حکومت اس کو مذاق سمجھتی ہے۔ لوگ آئیں گے تو بات بنے گی۔ ہر رکن قومی و صوبائی اسمبلی کو دس لوگ لانے کا کہا جا رہا ہے، سب کی حاضری لگائی جائے گی۔ منگل کو کیا ہوگا، سب پوچھ رہے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں اگر امن وامان کا مسئلہ پیدا ہوا تو بہت سختی سے نبٹا جائے گا۔ کوئی رعایت نہیں ہوگی۔ لیکن اس کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ بانی کو اڈیالہ سے دور کسی اور جیل میں شفٹ کر دیا جائے۔ سب بلوچستان کی بات کر رہے ہیں تا کہ کوئی پہنچ ہی نہ سکے۔ اس لیے منگل کی صورتحال حکومت اور مقتدرہ اپنے فائدے میں بھی استعمال کر سکتی ہے۔

لیکن ہم بات گورنر راج کی کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کی رائے ہے کہ افغانستان کے ساتھ کشیدگی ہے۔ دہشت گردی کا چیلنج ہے۔ افغانوں کو نکالنا ہے، اسمگلنگ کو روکنا ہے، منشیات کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا ہے۔ کہیں بھی کے پی کی موجودہ حکومت سیکیورٹی فورسز اور وفاقی حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی ہے۔

ایسے معاملات نہیں چل سکتے۔ بات اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ گورنر راج کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ دوسری طرف تحریک انصاف کا ردعمل ہے کہ کل کیوں آج لگائیں۔ بظاہر رد عمل یہی ہے۔ لیکن خبر یہی ہے کہ پریشانی بھی ہے ۔ کے پی کی حکومت ہی تو اس مشکل وقت میں سہارا ہے۔ سارے مفرور وہاں ہیں۔ سب موجیں ختم ہو جائیں گی۔ اس لیے کوئی ایسی بات نہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ابھی وفاق کی طرف سے دھمکی لگائی گئی۔صورتحال بہتر نہ ہوئی تو سوچیں گے۔

میرے دوست ہیں سنیئرصحافی حماد حسن۔ وہ کے پی کے معاملات پر کافی بہتر تجزیہ کرتے ہیں۔ میں اکثر کے پی کے معاملات پر ان سے رہنمائی لیتا ہوں۔ میں نے گورنر راج کی خبریں آنے کے بعد ان سے رابطہ کیا۔وہ گورنر راج لگانے کے سخت خلاف نکلے۔ ان کا موقف ہے کہ گورنر راج تحریک انصاف کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال دے گا۔ آپ دیکھیں 26نومبر کے بعد تحریک انصاف نے احتجاج کی جتنی بھی کال دی ہیں وہ ناکام ہوئی ہیں۔ حتیٰ کے ابھی یوم سیاہ میں ایک ہزار لوگ بھی نہیں تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت کی بری کارکردگی کی وجہ سے وہاں لوگ تحریک انصاف سے ناراض ہیں۔ ہری پور کا انتخاب آپ کے سامنے ہے۔

آپ کیوں انھیں شہید بنا رہے ہیں۔ پہلے بھی یہی غلطی ہوئی ہے۔ عمران خان شدید غیر مقبول تھا، عدم اعتماد سے کھیل بدل گیا۔ اس نے جان بوجھ کر پنجاب اور کے پی حکومتیں توڑ دیں تا کہ شہید بن سکے اور بات کارکردگی پر نہ آسکے۔ آج پھر وہ ماحول بن گیا ہے۔ بات کارکردگی پر آرہی ہے۔ کے پی کے لوگ ان سے کارکردگی پوچھ رہے ہیں۔ ہم کیوں انھیں سیاسی شہید بنا رہے ہیں۔ گورنر راج مردہ تحریک انصاف کو زندگی دے گا۔ تحریک انصاف کی تو کوشش ہوگی کہ انھیں شہید بنایا جائے۔ اس بار صبر کیا جائے، انھیں اپنی سیاسی موت خود مرنے دیا جائے۔

اب حماد حسن کی بات میں بھی وزن ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دوسری طرف بھی برداشت ختم ہو رہی ہے۔ لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ دوسرا فریق جان بوجھ کر حالات کو اس نہج پر لے کر جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ تبدیل ہی اسی لیے کیا گیا ہے کہ حالات کو اس نہج تک پہنچایا جائے۔

اس لیے گورنر راج ہی آخری آپشن ہے لیکن گورنر راج کوئی مستقل حل نہیں ہے۔چھہ ماہ بعد حکومت اور کے پی اسمبلی دوبارہ بحال ہو جائے گی۔ پھر کیا ہوگا۔ تلخی مزید بڑھ چکی ہو گی۔ پھر آئینی ترمیم کرنی ہوگی کہ گورنر راج لمبا چلایا جا سکے۔ ورنہ نہیں۔ چھ ماہ کا گورنر راج مسئلہ کا کوئی حل نہیں۔ دیکھا جائے تو وفاق اور مقتدرہ بھی بند گلی میں ہیں۔ تحریک انصاف بھی بند گلی میں ہے۔ دونوں کو کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ بند گلی میں دونوں کا دم گھٹ رہا ہے۔

Similar Posts