حکومت اور اس کا حامی طبقہ بڑی شدت کے ساتھ پہلے ہی سے یہ کہانی سنا رہا ہے کہ جیسے سیاسی اور غیر سیاسی طاقتوں نے باہمی اشتراک سے ملک میں اپنی مرضی اور منشا کے مطابق 26ویں اور 27ویں ترمیم منظور کی تھی تو اسی طرح حکومت اور ان کے اتحادیوں کے تمام تر تحفظات کے باوجود 28ویں ترمیم کو بھی منظور کرلیا جائے گا۔
بنیادی طور پر کہا جارہا ہے کہ 28ویں ترمیم میں نئے صوبوں کی تشکیل یا صوبوں کے مقابلے میں نئے انتظامی یونٹ کی تشکیل ، خود مختارمقامی حکومتوں کے تناظر میں آئینی ترمیم ، نیشنل فنانس کمیشن اور صوبوں کے تناظر میں وفاقی حکومت کے تحفظات پر مجوزہ ترمیم جس میں کچھ محکمے صوبوں سے وفاق میں منتقلی جیسے امور شامل ہیں ۔
بعض لوگ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ حکومت ملک میں گورننس کے نظام کی بہتری اور شفافیت کے لیے ایک خود مختار مقامی حکومتوں کی جانب پیش رفت کرنا چاہتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ یہ سیاسی کمٹمنٹ حکومت میں شامل دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی ہے یا کوئی اور طاقت خود مختارمقامی حکومتوں کے نظام کو یقینی بنانا چاہتی ہے ۔کیونکہ ماضی اور حال میں ان ہی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے ہمیشہ مقامی حکومتوں کے نظام کی خود مختاری کو نہ صرف نظرانداز کیا بلکہ اس نظام کو کمزور کرنا اور اس میں عدم تسلسل ان ہی کی پالیسی کا حصہ رہا ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اس ملک میں تمام صوبوں کی سطح پر خود مختار مقامی حکومت کا نظام کبھی کسی بھی حکومت کی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکا ۔حالانکہ 18ویں ترمیم کی بنیاد پر یہ منطق دی گئی تھی کہ وفاق کی طرح صوبے بھی اضلاع اور تحصیل یا یونین کونسل کی سطح پر مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط بنانے اور ان کو سیاسی،انتظامی اور مالی خود مختاری دینے میں کلیدی کردار ادا کریں گے ،مگر ایسا کچھ نہیں ہو سکا ۔بلکہ ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے مقامی حکومتوں کے نظام کے تسلسل یا اسے محض کمزور ہی نہیں کیا بلکہ اس کے مقابلے میں صوبوں اور اضلاع کی سطح پر متبادل نظام کمپنیوں اور اتھارٹیوں کا قائم کرکے اس نظام کی سیاسی طور پر نفی کی ہے۔
ایم کیو ایم کا ایک بل اسمبلی کی سطح پر موجود ہے جو کراچی اور حیدرآباد کی سیاست میں اپنا وزن رکھتا ہے اور وہ مقامی حکومتوں کے نظام کی عملا مضبوطی کو اپنے سیاسی فائدے کے طور پر دیکھتی ہے ۔ خود جماعت اسلامی بھی مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام پر زور دیتی رہی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف بھی اس نظام کی حامی ہے مگر اس کی حکومتی سیاسی کارکردگی بھی اس نظام کے حوالے سے مثالی نہیں۔ جب کہ باقی سیاسی جماعتیں اس نظام کی اہمیت اور تشکیل پر زیادہ زور نہیں دیتیں۔
اب 27ویں ترمیم کی منظوری میں ایم کیو ایم کی حمایت کے حصول میں ان کو یہ یقین دہانی،امید اور خوش فہمی دی گئی ہے کہ مقامی حکومتوںکے نظام کی مضبوطی کی ترمیم 28ویں ترمیم کا حصہ ہوگی۔لیکن اس پر بدستور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے اپنے اپنے سیاسی تحفظات ہیں ۔کیونکہ یہ دونوں بڑی جماعتیں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی یا مرکزیت کے مقابلے میں عدم مرکزیت کے خلاف ہیں اور وہ نچلی سطح پر خود مختار حکومتوں کو اپنے لیے ایک بڑا سیاسی خطرہ سمجھتے ہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں عملی طور پر خود مختار مقامی حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ اختیارات صوبائی حکومت کی سطح پر رکھ کر نظام کو چلانا چاہتی ہیں ۔اسی بنیاد پر ایم کیو ایم کے مطالبے پر پیپلزپارٹی نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ان کو لگتا ہے کہ اس عمل سے ان کی صوبائی خود مختاری متاثر ہوگی ۔خود رضا ربانی نے بھی کہا تھا کہ ہم نے 18ویں ترمیم میں اس نقطہ پر زیادہ زور نہیںدیا تھا کہ چاہے نئے صوبوں کی بات ہو یا خود مختار مقامی حکومتوں کا نظام دونوں قابل قبول نہیں ہیں اور مقامی حکومتوں کا نظام کیسا ہوگا یہ صوبائی حکومت کی صوابدید پر ہوگا اور اس میں وفاقی حکومت کو کسی بھی سطح پر مداخلت کا حق نہیں ہونا چاہیے۔
جب کہ مقامی حکومت کے حامی افراد ،سول سوسائٹی ،تھنک ٹینک اور علمی ،فکری اور سیاسی ذہن کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خود مختار مقامی حکومتوں کی بحث اور اس پر عملدرآمد اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا جب تک آئین پاکستان میں خود مختارمقامی حکومتوں کے نظام کو وفاقی اور صوبائی نظام کی طرح آئینی یا قانونی تحفظ نہیں دیا جائے گا۔
اسی طرح ایک بحث یہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ بھارت کی طرح آئین میں ان مقامی حکومتوں کی مکمل تشریح اور تحفظ دے بلکہ آئین پاکستان میں اس پر ایک مکمل باب شامل ہو تاکہ یہ نظام مکمل طور پرآئینی قانونی تحفظ حاصل کرسکے ۔یعنی پاکستان میں مقامی حکومتوں کے نظام کو مکمل طور پر صوبائی حکومتوں کے کنٹرول میں دینے اور اس میں وفاقی کردار کا نہ ہونا صوبوں کو بے لگام کررہا ہے کہ وہ اس مقامی نظام کو چلائیں یا نہ چلائیںاور اسی بنیاد پر کئی کئی برسوں تک اس مقامی نظام حکومت میں سیاسی تعطل رہتا ہے اور انتخابات سے گریز کیا جاتا ہے ۔اس لیے وفاقی سطح پر خود مختار مقامی حکومتوں کے لیے صوبوں کے سامنے ایک آئینی، قانونی اور جمہوری فریم ورک ہونا چاہیے تاکہ وہ خود مختار مقامی حکومتوں کے اصولوں کو بنیاد بنا کر صوبائی سطح پر ایک مکمل اور فعال نظام کوعملا چلاسکیں۔
پنجاب اسمبلی میں برادرم احسن اقبال کے بیٹے اور ممبر صوبائی اسمبلی احمد احسن اقبال نے پرائیویٹ ممبر کے طور پر ایک قرارداد کی مدد سے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مقامی حکومتوں کے نظام کے تسلسل کو آئینی تحفظ دیا جائے ۔مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی اپنی جماعت کا مجموعی کردار عوامی نمایندوں کو بااختیار بنانے کے بجائے بیوروکریسی کو مستحکم کرنا اور ان کی مدد سے نظام چلانے کا ہے جس پر خود جماعت میں اس پارٹی طرز عمل پر تحفظات ہیں ۔خیبر پختونخوا میں بھی جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہاں بھی منتخب نمایندوں کے مقابلے میں عملا بیوروکریسی کی بنیاد پر ہی نظام کو چلایا جارہا ہے۔
ایم کیو ایم کو جن قوتوں نے یقین دہانی کرائی ہے وہ نئی نئی ہے ۔ماضی میں بھی جب ایم کیو ایم کی سیاسی حمایت درکار ہوتی ہے تو اسے اسی قسم کی خوش فہمی میں رکھا جاتا ہے یا اسے سیاسی لولی پاپ دے کر وقتی طور پر اپنا کام نکالا جاتا ہے اور یہ ہی ایم کیوایم پھر پرانی تنخواہ پر کام کرنے پر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر خوشی خوشی راضی ہوجاتی ہے۔
اس لیے ایک ایسی ترمیم یا ترامیم جو مقامی حکومتوں کو حقیقی معنوں میں مضبوط بناسکے اس پر بڑی سیاسی جماعتیں تیار نہیں ہونگی اور اس میں خود قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان بھی شامل ہیں جو مقامی حکومتوں کے نظام کے مقابلے میں خود مقامی ترقیاتی فنڈ پر اپنا کنٹرول چاہتے ہیں ۔
اس وقت جو بحث نئے صوبوں یا نئے انتظامی یونٹ اور مقامی حکومت کے تناظر میں ہورہی ہے اس پر سیاسی قیادت کسی نہ کسی سطح پر مشکلات پیدا کریں گی تاکہ ان کی سیاسی طاقت کا کھیل خراب نہ ہو اور وہ ہی نظام میں زیادہ طاقت ور ہوں۔ویسے بھی نئے صوبوں یا نئے انتظامی یونٹ کی بحث کے مقابلے میں اصل ترجیح خود مختارمقامی حکومتوں کے نظام پر ہونی چاہیے اور یہ ہی عمل زیادہ پائیدار بھی ہوسکتا ہے ۔لیکن ایک طرف بڑی سیاسی جماعتیں اور دوسری طرف حد سے بڑھتی ہوئی مضبوط بیوروکریسی کیونکر صوبائی سطح پر اپنے کنٹرول اور اتھارٹی کو کم کرکے مقامی گورننس کی بنیاد پر اختیارات کو نچلی سطح پر عوامی نمایندوں کو ہی منتقل کریں گے ۔
اس وقت تو صوبوں کا کنٹرول صوبائی ممبران اسمبلی کے بجائے مضبوط بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہے ۔لیکن اہل سیاست یا جمہوری قوتیں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مقامی سطح پر گورننس کے سنگین بحران کی وجہ سے خود ان کے اپنے سیاسی اور جمہوری یا اقتدار کے نظام کی ساکھ بری طرح متاثر ہورہی ہے ۔لیکن کیونکہ وہ خود اختیارات سے چمٹ کر رہنا چاہتے ہیں اور عوام کو مقامی سطح پر حکمرانی میں حصہ دار بنانے کے لیے تیار نہیں جو بڑا سیاسی المیہ ہے۔