حکومت نے پنجاب لوکل گورنمنٹ ( ترمیمی ) ایکٹ 2025 کے تحت تجویز دی کہ مخصوص نشستوں پر نمائندے عوامی ووٹ کے بجائے بلدیاتی کونسلوں کے اندر سلیکشن کے ذریعے منتخب کئے جائیں گے ۔ حکومت کا موقف ہے کہ یہ نظام انتخابی عمل کو سادہ ، کم خرچ اور منظم بنائیگا تاہم سول سوسائٹی ، سیاسی جماعتوں اور قانونی ماہرین نے اسے جمہوری اقدار سے انحراف قرار دیا ۔
پنجاب حکومت کے مطابق یہ نیا ماڈل اس بات کو یقینی بنائیگا کہ کسان ، خواتین اور اقلیتوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی ملے ۔ وزیر بلدیات پنجاب ذیشان رفیق نے کہا کہ یہ طریقہ کار انتخابی دبائو سے آزاد اور شفاف ہے جس میں مخصوص طبقات اپنے حقیقی نمائندے خود چن سکیں گے تاہم ناقدین کے مطابق یہ اقدام ووٹ کے بنیادی حق کو محدود کر دیتا ہے کیونکہ عوامی ووٹ کے بجائے چند منتخب افراد مخصوص نشستوں پر فیصلہ کریں گے ۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ( ایچ آر سی پی ) نے اس ترمیم کو جمہوریت کی بنیادوں پر حملہ قرار دیا تحریک انصاف نے 4 نومبر 2025 کو ایک پٹیشن دائر کی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی متعدد شقیں آئین کے آرٹیکلز 17، 32 اور 140-اے سے متصادم ہیں ۔
پی ٹی آئی رہنما اعجاز شفیع کے مطابق یہ نظام ووٹر کا بنیادی حق چھینتا ہے جماعت اسلامی نے بھی علیحدہ پٹیشن دائر کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کو آئینی خلاف ورزی قرار دیا ہے ۔