گزشتہ دنوں شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں ایک انڈیکس شایع کیا گیا ہے جس میں چاروں صوبوں کے ان اضلاع کی نشاندہی کی گئی ہے جو 78 برس گزرنے کے باوجود پسماندہ ہیں۔ ان اضلاع کی تعداد 40 کے قریب بتائی جاتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ان اضلاع کی 3 کروڑ سے زیادہ آبادی کو پکے مکانات دستیاب نہیں ہیں۔ اسی طرح 40 فیصد کو صاف پانی کی سہولت میسر نہیں جب کہ ڈھائی کروڑ افراد صحت کی سہولتوں اور 70 لاکھ افراد تعلیم کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
اس طرح نصف گھروں میں بیت الخلاء بھی موجود نہیں۔ اس انڈیکس کے مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ پسماندہ اضلاع بلوچستان میں ہیں۔ بلوچستان کے اضلاع خضدار،کوہلو، ژوب، ڈیرہ بگٹی، مشکیل، قلعہ سیف اللہ، وشکیل، جھل مگسی، آواران، خاران، پختون خوا کے پسماندہ اضلاع میں مالاکنڈ، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، پنجاب میں تمام جنوبی شہر، سندھ میں تھرپارکر، میرپور خاص، لاڑکانہ وغیرہ پسماندہ ترین اضلاع میں شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اضلاع میں غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یہ اضلاع خواندگی، تعلیم اور صحت کی سہولتوں اور انفرا اسٹرکچر کے تناظر میں دیگر اضلاع سے ترقی میں بہت پیچھے ہیں۔
پاپولیشن کونسل کا ڈسٹرکٹ ولنربلٹی انڈیکس فار پاکستان ملک کے صوبوں اور اضلاع میں پائی جانے والی کمزوریوں کی ایک تفصیلی اور ڈیٹا پر مبنی تصویر سامنے لاتا ہے۔ یہ انڈیکس ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے مختلف خطوں میں موجود ترقیاتی فرق کسی اتفاق یا حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ دہائیوں پر مشتمل ایسی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جن میں ترقیاتی ترجیحات مسلسل غیر متوازن رہیں اور سیاسی فیصلوں نے مخصوص علاقوں کو فائدہ پہنچایا، جب کہ باقی خطے محرومی کی زد میں رہے۔
یہ انڈیکس موجودہ سرکاری اور غیر سرکاری ڈیٹا سیٹس کو یکجا کر کے یہ جانچتا ہے کہ پاکستان کے اضلاع ایک دوسرے کے مقابلے میں کتنے کمزور یا کتنے مستحکم ہیں۔ روایتی موسمیاتی یا آفات سے متعلق جائزوں کے برعکس، یہ رپورٹ صرف وقتی حادثات یا قدرتی تباہ کاریوں پر توجہ نہیں دیتی بلکہ ان بنیادی ساختی اور نظامی محرومیوں کو سامنے لاتی ہے جو کسی علاقے کو طویل عرصے تک پس ماندہ رکھتی ہیں۔ رپورٹ 21 اشاریوں پر مشتمل ہے جنھیں چھ بڑے شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں رہائش، مواصلات اور ٹرانسپورٹ، روزگار اور ذریعہ معاش، صحت کی سہولیات، عوامی تعلیم تک رسائی اور آبادیاتی عوامل شامل ہیں۔
پاکستان میں صوبائی سطح پر پائی جانے والی عدم مساوات نہ صرف وسیع ہے بلکہ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس کی واضح مثال بلوچستان ہے، جو سماجی، معاشی اور انسانی ترقی کے لحاظ سے ملک کا سب سے پسماندہ خطہ ہے۔ انفرا اسٹرکچر سے لے کر روزگار تک اور مواصلات سے لے کر انسانی ترقی، تعلیم اور صحت تک۔ تقریباً ہر شعبے میں بلوچستان مسلسل آخری نمبروں پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق صوبے کی انتظامی کمزوری، بے روزگاری کی بلند شرح، ناکافی رہائش، صحت و تعلیم تک محدود رسائی، ناکافی روزگار کے مواقع، ایک ایسے صوبے کی تصویر پیش کرتی ہے جو قومی ترقیاتی دھارے سے تقریباً مکمل طور پرکٹا ہوا ہے۔
ملک بھر کے 20 سب سے کمزور اضلاع میں رہنے والے ایک کروڑ افراد میں سے نصف سے زیادہ بلوچستان میں آباد ہیں۔ دوسری طرف، 20 سب سے مضبوط اضلاع میں اکثریت پنجاب کے اضلاع کی ہے، اگرچہ پنجاب کے جنوبی اور مغربی علاقے خود بھی شدید محرومی کا شکار ہیں۔ چند بہتر اضلاع سندھ اور خیبر پختونخوا میں بھی شامل ہیں، مگر بنیادی فرق واضح ہے۔ ترقی کے ثمرات پاکستان کے مختلف علاقوں میں انتہائی غیر مساوی طریقے سے تقسیم ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 20 میں سے 17 سب سے کمزور اضلاع بلوچستان میں ہیں، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صوبے کی پسماندگی کوئی وقتی سلسلہ یا حادثاتی بحران نہیں بلکہ طویل المیعاد حکومتی غفلت کا نتیجہ ہے۔ حتیٰ کہ خیبر پختونخوا، جو اپنے چیلنجز رکھتا ہے، بلوچستان کے مقابلے میں کہیں بہتر کارکردگی دکھاتا ہے اور اس کے صرف ایک ضلع کا شمار ملک کے پانچ سب سے کمزور اضلاع میں ہوتا ہے۔
رپورٹ واضح کرتی ہے کہ مختلف ادوارکی حکومتوں نے ہمیشہ ترقیاتی اخراجات، منصوبے اور وسائل اُن خطوں پر مرکوز رکھے جو سیاسی طور پر زیادہ اہم تھے۔ اس حکمتِ عملی کے پیچھے بنیادی وجہ ایک انتہائی مرکزیت پسند حکومتی ڈھانچہ اور مختصر المدتی انتخابی سیاست رہی ہے، جس کی وجہ سے دور دراز، پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ اضلاع بنیادی سہولیات تک بھی نہ پہنچ سکے۔ خواہ وہ صحت اور تعلیم ہو یا ماحولیاتی خطرات کے مقابلے کی صلاحیت پیدا کرنا۔ مختصراً رپورٹ ہمارے ترقیاتی منظر نامے کے بارے میں دو بنیادی نکات واضح کرتی ہے۔ اول : پاکستان کے مسائل صرف وسائل کی کمی کا نتیجہ نہیں بلکہ اصل مسئلہ ان وسائل اور اہم خدمات کی شدید غیر منصفانہ اور غیر متوازن تقسیم ہے جو ملک کے مختلف علاقوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔
دوم : ان گہری محرومیوں کی وجہ سے وہ علاقے جو پہلے ہی پیچھے رہ گئے ہیں، قدرتی آفات اور بحرانوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں اور اُن کے لیے ترقی یافتہ علاقوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس انڈیکس کے تجزیہ کے بعد ضروری ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے فارمولہ میں بنیادی تبدیلی ہونی چاہیے۔ اب بجائے آبادی کے پسماندگی کی بنیاد پر گرانٹ کی تقسیم ہونی چاہیے۔ پسماندہ صوبوں کو زیادہ گرانٹ ملنی چاہیے۔ پھر ایک مسئلہ صوبوں کو ملنے والی رقم کے استعمال کی اہلیت کا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ صوبوں کے منتخب اراکین، وزراء اور بیوروکریسی کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے ورکشاپ، فوکسڈ ڈسکشن گروپ اور کانفرنس وغیرہ کے بار بار انعقاد پر خصوصی توجہ دی جائے، اس کے ساتھ ہی نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام قائم کیا جائے تاکہ یونین کونسل کی سطح سے لے کر صوبے کی سطح تک غربت کے خاتمہ اور ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی کے لیے عوام کے براہِ راست اپنے حکمرانوں سے رابطے قائم ہوسکیں۔ کرپشن کے خاتمہ کے لیے احتساب کے آزاد اور خودمختار ادارہ کا قیام ضروری ہے۔ یہ مفروضہ غلط ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم کر کے وفاق کا حصہ بڑھانے سے پسماندہ صوبے ترقی کرسکیں گے ۔ حقیقتاً صوبوں کا حصہ بڑھانے اور یہ رقم نچلی سطح پر خرچ ہونے سے ہی یہ اضلاع ترقی کی دوڑ میں شامل ہوسکیں گے۔ یوں مجموعی طور پر ملک ترقی کرے گا۔