یاد کا موسم

کچھ موسم کبھی ختم نہیں ہوتے، وہ بار بار لوٹتے ہیں، دل کے دریچوں پر دستک دیتے ہیں اور ہمیں ایک ایسے سفر پر لے جاتے ہیں جہاں ذاتی یادیں اجتماعی محرومیوں سے جا ملتی ہیں۔ میرے لیے یہ موسم خزاں کے زرد پتوں کی طرح ہے جو جھڑتے ضرور ہیں لیکن زمین پرگرکر بھی اپنی موجودگی کا اعلان کرتے ہیں۔ یاد کا موسم بھی ایسا ہی ہے، وہ ہمیں بتاتا ہے کہ جو کچھ گزرگیا وہ مٹتا نہیں، بلکہ ایک چراغ کی مانند رہتا ہے جو اندھیروں میں بھی تھوڑا سا اجالا دیتا ہے۔

مجھے یاد ہے وہ دن جب کراچی کی فضا کتابوں کی خوشبو سے بھری ہوتی تھی۔ ادبی محفلیں صرف شاعری اور نثر تک محدود نہ تھیں بلکہ وہاں سیاست، فلسفہ اور انقلاب کی باتیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ اختلاف رائے کو برداشت کیا جاتا تھا اور لوگ جانتے تھے کہ مکالمہ ہی سماج کو آگے بڑھاتا ہے لیکن آج شہروں میں شور ہے، میڈیا کی چیخ و پکار ہے اور مکالمہ کہیں گم ہوگیا ہے۔

یاد کا موسم جب دل پر اترتا ہے تو بچپن کے مناظر بھی سامنے آتے ہیں۔ مٹی کی خوشبو، درختوں کے سائے اور بزرگوں کی دعائیں سب کسی خواب کی مانند یاد آتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ احساس بھی دل کو گھیر لیتا ہے کہ ہم نے اپنی اجتماعی یاد کو دفنانے میں کمال حاصل کر لیا ہے۔ ہم نے ان کہانیوں کو بھلا دیا ہے جو ہمارے اجتماعی شعورکی بنیاد تھیں۔

کیا ہمیں یاد ہے کہ حسن ناصر نے اپنی جوانی قید خانوں میں گنوا دی؟ کیا ہمیں یاد ہے کہ نذیر عباسی کے خون نے اس مٹی کو سرخ کیا؟ ہمارے نصاب ان کے ذکر سے خالی ہیں، ہمارے جلسے ان کے ناموں سے محروم ہیں، ہم نے بھول جانے کو اپنی عادت بنا لیا ہے لیکن بھولنے سے تاریخ ختم نہیں ہوتی صرف بگڑتی ہے۔

یاد کا موسم مزدوروں کی محنت اور پسینے کی یاد بھی لاتا ہے۔ وہ مزدور جنھوں نے پاکستان اسٹیل ملز کے بھٹوں میں اپنی جوانی جھونک دی، وہ کسان جنھوں نے زمین کو زرخیز بنایا، لیکن آج بھی بھوک اور غربت کے قیدی ہیں۔ طاقتور سرمایہ دار کے محل بلند سے بلند تر ہوتے گئے اور مزدور کا جھونپڑا پہلے سے بھی زیادہ بوسیدہ ہوگیا۔ یہ سب ہماری اجتماعی یاد کا حصہ ہے لیکن ہم نے اسے فراموش کر دیا۔

یہ موسم عورتوں کی مزاحمت کو بھی سامنے لے آتا ہے۔ مجھے وہ لڑکیاں یاد آتی ہیں جو ایران کی سڑکوں پر اپنے بال کھول کر آزادی کے نعرے لگاتی ہیں۔ مجھے افغانستان کی وہ بیٹیاں یاد آتی ہیں جنھیں تعلیم کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ مجھے اپنے دیس کی وہ مائیں اور بہنیں یاد آتی ہیں جو چولہا جلانے کے لیے دن رات مزدوری کرتی ہیں، لیکن یہ یادیں ہمیں رلانے کے لیے نہیں جگانے کے لیے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اگر یہ عورتیں ہار نہیں مانتیں تو ہم کیوں ہار مانیں؟

یاد کا موسم ہمیں ان خوابوں کی طرف بھی لے جاتا ہے جو ہمارے دوستوں نے دیکھے تھے۔ خواب ایک آزاد اور برابری پر مبنی دنیا کے، خواب ایک ایسے معاشرے کے جہاں علم اور مکالمہ ہو، جہاں عورت کو دوسرے درجے کا انسان نہ سمجھا جائے۔ کچھ دوست اب زمین کے بوجھ سے آزاد ہو گئے، کچھ جلاوطنی کی دھوپ بھرے صحراؤں میں گم ہوگئے اور کچھ خاموشی کی زنجیروں میں قید ہیں لیکن ان کے خواب آج بھی ہمارے دل کے گوشوں میں محفوظ ہیں جیسے پرانی کتابوں کے اوراق میں دبے ہوئے گلاب کے پھول۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب جب عوامی تحریکیں اٹھیں، طاقتوروں نے انھیں کچلنے کی کوشش کی لیکن خون کا ایک قطرہ بھی رائیگاں نہیں جاتا۔ وہ آنے والے موسموں میں امید کا بیج بنتا ہے۔ اسی لیے ہر بار جب بارش کی پہلی بوند گرتی ہے تو مجھے مزدور عورتوں کے ننگے پاؤں یاد آتے ہیں جو کیچڑ میں چل کر اینٹوں کے بوجھ اٹھاتی ہیں۔ خزاں آتی ہے تو مجھے لگتا ہے کہ ہمارے سماج سے انصاف کے سب پتے جھڑ گئے ہیں۔ لیکن جب بہار آتی ہے تو دل کہتا ہے کہ شاید پھر کوئی موسم ایسا آئے جب خواب حقیقت بنیں۔

ہماری زندگی میں یاد کا موسم بار بار آتا ہے لیکن ہر بار ایک سوال چھوڑ جاتا ہے، ہم نے آنے والی نسل کو کیا دیا؟ کیا ہم نے انھیں صرف بکھری ہوئی یادیں دیں یا خوابوں کی روشنی بھی؟ کیا ہم نے انھیں صرف زخم دیے یا ان کے مرہم کی بھی بات کی؟ یاد کا موسم ہمیں بتاتا ہے کہ وقت ایک سیدھی لکیر نہیں بلکہ دائرہ ہے۔ جیسے خزاں کے بعد بہار ضرور آتی ہے، ویسے ہی ظلم کے بعد آزادی کا موسم بھی آتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اپنی یادوں کو زندہ رکھیں۔ ہم ان لوگوں کو یاد رکھیں جنھیں طاقتوروں نے مٹانے کی کوشش کی ہم ان خوابوں کو یاد رکھیں جو ابھی ادھورے ہیں۔

اور آخر میں میں پھر وہی سوچتی ہوں کہ یاد کا موسم صرف میرا نہیں، آپ سب کا بھی ہے۔ یہ ہمیں جھنجھوڑتا ہے ہمیں ماضی سے جوڑتا ہے اور ہمیں یہ حوصلہ دیتا ہے کہ اگرچہ راستہ مشکل ہے لیکن روشنی کا امکان ابھی باقی ہے۔ جب تک یہ موسم لوٹتا رہے گا تب تک امید کا چراغ بھی بجھنے نہیں پائے گا۔ میری یاد میں عینی آپا بھی ہیں، ان کے لکھے لفظ دل پہ تحریر ہیں بہت سی یادیں ہیں، میں جلد ہی ان یادوں پہ بھی لکھوں گی۔

Similar Posts