وفاقی وزیر کے بیان پر سندھ حکومت کے ترجمان نے روایتی انداز میںکہا ہے کہ متحدہ کی سیاست ختم ہو چکی۔ کراچی کا میئر اور بلدیاتی منتخب نمایندوں کی اکثریت کا تعلق اب پیپلز پارٹی سے ہے جو بہترین کام کر رہے ہیں۔ایک اور صوبائی وزیر نے دعویٰ کیا ہے کہ بلدیاتی اداروں کو سب سے زیادہ بااختیار پیپلز پارٹی نے بنایا ہے۔ ہم لاہورکا مقامی حکومتوں کا نظام کراچی میں لانے کو تیار ہیں۔
پی ٹی آئی پنجاب حکومت کے مجوزہ نظام کو عدلیہ میں چیلنج کر چکی ہے جب کہ پی ٹی آئی بارہ برس سے جس صوبے کے پی میں برسر اقتدار ہے وہاں اس نے بے اختیار بلدیاتی نظام مسلط کر رکھا ہے جس پر کے پی کے منتخب بلدیاتی نمایندے تین برس سے مسلسل احتجاج اور بلدیاتی اداروں کے اختیارات بڑھانے اور آئین کی دفعہ 140-A کے تحت بااختیار بنانے کی تحریک چلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کے پی میں گنڈاپور حکومت نے بلدیاتی اداروں کو اختیارات دیے اور نا موجودہ وزیر اعلیٰ اختیارات دینا چاہتے ہیں۔
اس لیے اب ہم اپنے احتجاج کو وسیع کرنے پر مجبور ہیں۔ واضح رہے کہ کے پی میں میئروں کے الیکشن برائے راست اور دو مرحلوں میںاس وقت ہوئے تھے جب بانی پی ٹی آئی پاکستان کے وزیراعظم تھے جن میں پشاورکا میئر جے یو آئی کا منتخب ہوا تھا اور پی ٹی آئی کو شکست ہوئی تھی جس پر بانی پی ٹی آئی نے خود مداخلت کر کے بلدیاتی مہم چلائی تھی جس میں گنڈاپور کے بھائی ڈی آئی خان کے میئر منتخب کرائے تھے مگر وزیر اعلیٰ گنڈاپور نے پھر بھی اپنے صوبے میں بلدیاتی اداروں کو آئین کے تحت اختیارات نہیں دیے تھے جس پر کے پی کے بلدیاتی نمایندے اب بھی اختیارات مانگ رہے ہیں مگر کے پی حکومت اپنے صوبے میں اختیارات نہیں دے رہی اور پی ٹی آئی اختیارات کم ہونے پر پنجاب حکومت کے بلدیاتی نظام کو چیلنج کر چکی ہے۔یوں دیکھا جائے تو پی ٹی آئی نے بھی بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہیں دیے۔
سندھ حکومت نے اپنے صوبے کے تمام میئر اپنے منتخب کرا رکھے ہیں اور پہلی بار کراچی و حیدرآباد جیسے بڑے شہروں کے میئر پیپلز پارٹی منتخب کرا چکی ہے اور اپنے ہی بلدیاتی اداروں کو آئین کے مطابق بااختیار نہیں بنا رہی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت نے بھی پنجاب میں بے اختیار بلدیاتی نظام منظورکیا ہے جو عدالت میں چیلنج ہو چکا ہے اور پنجاب جیسا بے اختیار بلدیاتی نظام کراچی لانے کی پیشکش سندھ حکومت نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو کی ہے جو کراچی میں نہیں بلکہ پورے ملک کو آئین کی شق 140-A کے تحت مقامی حکومتوں کو اختیارات دلانا چاہتی ہے اور اس نے 27 ویں آئینی ترمیم میں یہ کوشش کی مگر وزیر اعظم نے ایم کیو ایم کو آیندہ پر ڈال دیا اور وعدہ کر لیا جو کبھی پورا نہیں ہوگا۔
پی پی کی سندھ حکومت اور پنجاب کی (ن) لیگی حکومت ہوں یا پی ٹی آئی کی کے پی حکومت تینوں بڑی پارٹیاں ملک میں بااختیار بلدیاتی حکومتوں کے قیام کے حق میںنہیں ہیں اور ان کے ارکان صوبائی اسمبلی بھی بااختیار مقامی حکومتیں نہیں چاہتے تاکہ انھیں ترقیاتی فنڈز ملتے رہیں جو بلدیاتی اداروں کا آئینی حق ہے اور سپریم کورٹ بھی قرار دے چکی ہے کہ ترقیاتی فنڈز ارکان اسمبلی کا حق نہیں مگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں باز نہیں آ رہیں۔ پیپلز پارٹی نے پنجاب کے نئے بلدیاتی نظام کو عدلیہ میں چیلنج بھی نہیں کیا کیونکہ اس کا اپنا سندھ کا بلدیاتی نظام کمزور ہے اور پی ٹی آئی اپنے کے پی کے بے اختیار بلدیاتی نظام کو اختیارات نہیں دے رہی اور پنجاب کو چیلنج کر چکی ہے۔
آئین میں واضح ہے کہ ملک میں 1973 کے آئین کے تحت بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانا لازمی ہے اور دفعہ140-A میں اس کا واضح ذکر ہے۔ سپریم کورٹ آئین کی تشریح اور عمل کرانے کی پابند ہے جس پر صرف چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عمل کرایا تھا اور سپریم کورٹ کے حکم پر 2015 میں بلدیاتی الیکشن ہوئے تھے اور صوبائی حکومتوں نے مجبوری میں جماعتی بنیاد پر اپنے بے اختیار بلدیاتی نظاموں کے تحت انتخابات کرائے تھے جس میں (ن) لیگ نے پنجاب میں واضح کامیابی حاصل کی تھی مگر بلدیاتی عمل میں تاخیر کرکے انھیں اختیارات دیر سے دیے گئے تھے جس کے بعد پی ٹی آئی اقتدار میں آئی اور اس نے (ن) لیگ کی سیاسی مخالفت میں پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو پہلے ترقیاتی کاموں سے روکا بعد میں منتخب بلدیاتی ادارے ہی توڑ دیے تھے جس پر اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا گیا تھا مگر سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا تھا۔
اگر اس وقت کی عدلیہ چاہتی تو دفعہ 140-A کے تحت بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنا سکتی تھی مگر اعلیٰ عدلیہ نہ جانے کیوں بلدیاتی اداروں کو اہمیت نہیں دیتی جو جمہوریت کی اصل بنیاد اور نرسری ہیں۔ اگر دو عشروں میں آئین کی خلاف ورزی پرکسی صوبائی حکومت کے خلاف کارروائی ہو جاتی تو ملک میں مقامی حکومتیں مضبوط و مستحکم اور منتخب بلدیاتی عہدیدار بااختیار ہوتے جس سے عوامی مسائل حل ہوتے۔
آئین کے تحت بااختیار بلدیاتی ادارے اگر دفعہ 140-A کے تحت قائم ہو جاتے تو آج ملک میں بلدیاتی نمایندے اختیار نہ مانگ رہے ہوتے۔ سیاسی حکومتیں بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے میں اصل رکاوٹ ہیں جن کے خلاف کبھی عدالتی ایکشن نہیں ہوا۔ دفعہ 140-A پر عمل سندھ یا کراچی کی نہیں پورے ملک کی اشد ضرورت ہے جس پر عمل کے لیے ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی مسلسل مطالبات کر رہی ہیں مگر شنوائی نہیں ہوتی ۔ اگر دفعہ 140-A پر ہی عملدرآمد ہو جائے تو ملک کے عوام کو موثر بلدیاتی نظام میسر آ سکتا ہے۔