پہلے بھی اس طبقے کی خواہش تو یہی تھی مگر قدرے دبی ہوئی تھی، مگر مشرف دور سے اس طبقے کو کھلی چھٹی مل گئی اور اب تو وہ کھل کر کہنے لگے ہیں کہ مرد اور عورت بغیر نکاح کے اکٹھے رہیں، ایک دوسرے کے ساتھ ازدواجی تعلق استوار کریں تو بھلے کریں، انھیں اس کی اجازت ہونی چاہیے۔ مغربی ممالک میں جہاں مرد کو مرد سے اور عورت کو عورت سے شادی کی اجازت ہے، اور جہاں زنا بالرضا جرم نہیں ہے، وہاں بے شمار جوڑے اس طرح رہتے ہیں۔ مگر ایشیائی معاشرت میں بالعموم اور اسلامی معاشرے میں بالخصوص اسے غلط، ناپسندیدہ اور جرم سمجھا جاتا ہے۔
مغرب میں بغیر نکاح کے اکٹھے رہنے کو Live in relationship کہا جاتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مغربی کلچر کی کوئی ایسی برائی نہیں جسے ہماری احساسِ کمتری کی ماری ہوئی اشرافیہ فوراً اچک نہ لے اور اس پر عملدرآمد نہ شروع کردے، لہٰذا ہمارے ہاں بھی اب ایسے واقعات سامنے آنے لگے ہیں۔ نئی نسل کو اس کے بھیانک اثرات کا ضرور ادراک کرنا چاہیے اور یہ معاملہ معاشرتی اصلاح کرنے والوں کے لیے ایک اہم موضوع ہے جس پر انھیں اپنے حلقوں میں گفتگو کرنی چاہیے۔
میں نے صرف ایک elder کی حیثیّت سے والدین اور معاشرے کی توجہ ایک ایسی برائی کی جانب مبذول کرائی ہے جس کی ہمارے تمدّن اور معاشرت میں کوئی گنجائش نہیں، ایسی خرافات مغربی کلچر کی پیداوار ہیں اور مغرب کی ہر چیز کو برتر سمجھنے والی ہماری ایلیٹ کلاس ایسی ہر برائی کو قبول بلکہ اپنے ہاں رائج کررہی ہے۔
اس جائز اور بروقت نصیحت پر اپنے آپ کو لبرل کہنے والا طبقہ ضرور تلملا اٹھے گا اور اس مشورے پر غور کرنے اور سنجیدگی سے عمل کرنے کے بجائے تنقید شروع کردے گا، اور دوسری طرف وہ Live in relation یعنی بغیر نکاح کے ساتھ رہنے کا دیدہ دلیری سے دفاع کر گے گا اور کوئی بھی اس کا نوٹس نہیں لے گا۔ یہ کون لوگ ہیں جو ایک جرم اور گناہ کا دفاع کررہے ہیں، یہ لوگ جس عمل کی حمایت کررہے ہیں کیا وہ مقامی کلچر کا حصہ ہے؟ ہر گز نہیں۔ کیا اس عمل کی ہمارے ملکی کلچر میں گنجائش ہے؟ بالکل نہیں۔
کیا وہ عمل ایشیائی معاشرت میں پسندیدہ سمجھا جاتا ہے؟ اس کا جواب بھی ناں میں ہے، پورے ایشیا میں بغیر نکاح کے مرد وزن کے ایک ساتھ رہنے کو برائی اور جرم سمجھا جاتا ہے، پھر ایک مخصوص نظریے اور خیالات کا حامل گروہ ایک معاشرتی اور قانونی برائی اور جرم کی حمایت پر کیوں تلا ہوا ہے؟ حیرت ہے کہ یہ لوگ مکھن کو ٹھنڈی جگہ پر رکھنے کے بجائے آگ کے قریب لے جاتے ہیں اور اگر وہ پگھل جائے تو آگ کو موردِ الزام ٹھہرانا شروع کردیتے ہیں، ایک چینی کہاوت ہے کہ ’’گوشت کو ڈھانپ کر رکھو ورنہ اس پر کتوں اور بلیوں کا حملہ لازمی ہوگا‘‘۔ یہ مخصوص لوگ گوشت کو ڈھانپنے کے بجائے کھلا رکھنے پر اصرار کرتے ہیں اور اگر اس پر کتا منہ مارلے تو نہ صرف کتے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں، بلکہ گوشت ڈھانپنے کا مشورہ دینے والوں پر بھی تنقید شروع کردیتے ہیں۔
جرائم کو کنٹرول کرنے اور نپٹنے کے ذمے دار پولیس افسران یا مقدمے کی سماعت کرنے والے جج صاحبان کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ جرم کا نشانہ بننے والے فرد کی کسی کوتاہی کی نشاندہی کرتے ہوئے دوسروں کو متنبّہ کرے تاکہ وہ مکمل حفاظتی انتظامات اختیار کریں اور اس ضمن میں کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہ کریں۔ اگر متعلقہ افراد ایسا مشورہ دیں یا اس نوعیت کے جرائم کے انسداد کے لیے نصیحت یا انتباہ کریں تو اسے Victrim blaming نہیں سمجھا جاتا، مہذّب معاشرے ایسی نصیحت یا انتباہ کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، میڈیا بھی ایسی ہمدردانہ نصیحت کو سپورٹ کرتا ہے۔
آج کے جدید دور میں کوئی بھی معاشرہ rules of game یا ڈسپلن کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا، اس کے لیے ہر ملک اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق آئین اور قوانین بناتا ہے، ہر شہری جن پر عملدرآمد کا پابند ہوتاہے۔ بدکاری کے حامیوں کو پوچھا جانا چاہیے کہ آخر وہ کس بنیاد پر ایک جرم کی حمایت کررہے ہیں، جب کہ ملک کا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا، ہماری اخلاقی اور معاشرتی اقدار ان کی نفی کرتی ہیں، ہمارا معاشرہ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور ہمارے آئین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہر کام کی کوئی دلیل ہونی چاہیے۔
اس معاملے میں لبرلز کے پاس ایک ناپسندیدہ فعل کا دفاع کرنے کی دلیل اور جواز کیا ہے؟ دراصل جواز بھی ایک ہے اور دلیل بھی ایک۔ کہ یہ فعل چونکہ مغربی معاشرے میں ہوتا ہے اور وہاں اسے جرم نہیں سمجھا جاتا اور چونکہ ان کی چمڑی سفید ہے اور وہ ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں اس لیے ان کا ہر کام اعلیٰ ہے، اور ان کے طرزِ زندگی کی تقلید کی جانی چاہیے، یہ ہے ان کی سوچ۔ یہی ہماری سب سے بڑی بیماری ہے یعنی مرعوبیّت، غلامانہ سوچ اور احساسِ کمتری۔ اسی بیماری سے نجات کے لیے اقبالؒ جدوجہد کرتے رہے۔ تیری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ طبقہ مغرب کے دسترخوان سے ہی ہڈیاں چُنتا ہے، انھوں نے اپنی این جی اوز کے نام پر مغربی ممالک سے ہی ڈالر اور یورو اینٹھنے ہوتے ہیں لہٰذا یہ لوگ انتہائی تابعدار اور وفادار غلاموں کی طرح ان کا ایجنڈا پھیلانے کا ٹاسک بھی پورا کرتے ہیں۔ ایجنڈا کیا ہے؟ ان کا ایجنڈا ہے اسلامی تہذیب کی جگہ مغربی کلچر کا فروغ اور معاشرے سے پاکیزگی اور شرم وحیا کا مکمّل خاتمہ۔ ان کا دل ضرور کہتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ غلط اور حرام ہے۔ ہر مذہب اور ہر الہامی کتاب نے اسے حرام اور جرم قرار دیا ہے مگر چونکہ انھوں نے ایک نوکر اور غلام کی طرح اپنے مالک اور آقا کا حکم بجا لانا ہے اور ان کی ہدایات پر من وعن عمل کرنا ہے۔ اس لیے وہ اپنی ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں لیکن اگر وہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو خود محسوس کریں گے کہ وہ جو کام کررہے ہیں وہ انتہائی گھٹیا اور شرمناک ہے۔
میں نے کئی خواتین وحضرات سے خود پوچھا ہے کہ کسی جوڑے کا بغیر نکاح کے ساتھ رہنے کے بارے میں ان کا نظریہ یا خیال کیا ہے۔ اس پر نوّے فیصد کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں اس قسم کا کلچر قبول نہیں، ہم اپنی بیٹیوں یا بیٹوںکو دوستوں کے ساتھ راتیں گزارنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ مغربی تہذیب کا سب سے تاریک پہلو یہی ہے کہ اس میں پاکیزگی نہیں ہے اور وہ حیا سے محروم ہے۔ جس تہذیب میں پاکیزگی اور حیا نہ ہو وہ کسی انسانی معاشرے کے لیے مضر تو ہوسکتی ہے مفید نہیں ہوسکتی۔