متروکہ وقف املاک بورڈ(ای ٹی پی بی) کے چیف کنٹرولراکااونٹس عدیل احمد نے بتایا کہ ایف بی آر نے پہلے مرحلے میں 1215 ملین روپے کا ٹیکس کلیم کیا تھا اور بعد ازاں 1118 ملین روپے براہِ راست بورڈ کے اکاؤنٹس سے نکال لیے۔ اس سے قبل بھی 942 ملین اور 235 ملین روپے کی کٹوتیاں کی گئی تھیں، جس کے باعث مجموعی بوجھ کئی ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر کے اس اقدام کو چیلنج کرتے ہوئے اپیلٹ ٹربیونل (اے ٹی آئی آر) سے حکمِ امتناعی حاصل کر لیا گیا ہے۔انہوں مؤقف اختیار کیا ہے کہ متروکہ وقف املاک بورڈ ایک وفاقی اور ٹرسٹی ادارہ ہے، جسے ٹیکس سے استثنی حاصل ہےاور ایف بی آر خود 2012 سے 2022 تک ٹیکس استثنیٰ کے سرٹیفکیٹ جاری کرتا رہا ہے تاہم 2023 میں اچانک یہ استثنیٰ ختم کر دیا گیا جس کے بعد موجودہ تنازع کھڑا ہوا۔ بورڈ کے مطابق ایک وقافی سطح کے وقف ادارے کو کاروباری کمپنی کے طور پر ڈیل کیا جارہا ہے جو نہ صرف غیر مناسب ہے بلکہ ادارے کی قانونی حیثیت کے بھی خلاف ہے۔
بورڈ ملازمین کی نیشنل یونین کے جنرل سیکرٹری مدثر زیدی کے مطابق موجودہ صورتِ حال بورڈ کے معمول کے انتظامی امور کو مفلوج کر رہی ہے۔ اب تک بورڈ کے 1500 کے قریب ملازمین کو تنخواہ نہیں مل سکی جبکہ ریٹائرڈملازمین کی پینشن بھی رک گئی ہے۔
مدثر زیدی کے مطابق ملک بھر گوردواروں اورمندروں کی آرائش وتزئین اوربحالی کا کام بھی رک گیا ہے جو وزیر اعظم شہبازشریف اور وزیراعلی پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر شروع کیا گیا تھا۔ بجلی اورگیس سمیت یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی بھی رک گئی ہے
انہوں نے کہا کہ متروکہ وقف املاک بورڈ سکھ اور ہندو برادری کی وقف جائیدادوں کا نگران ادارہ ہے اور اس کے ذمے متعدد سماجی و فلاحی سرگرمیاں بھی ہیں۔ بھاری رقوم اکاؤنٹس سے نکالے جانے کے بعد بورڈ کے زیرانتظام چلنے والے اسکولوں اور اسپتالوں کا نظام بھی متاثر ہونے لگا ہے۔