افغانستان میں سزائے موت پر سرعام عمل درآمد کی ویڈیو سامنے آئی ہے۔ افغان اور بین الاقوامی میڈیا کے مطابق یہ واقعہ منگل کے روز مشرقی صوبے خوست کے ایک اسٹیڈیم میں پیش آیا، جہاں منگل نامی قتل کے مجرم کو ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ حیران کن طور پر سزا پر عمل ایک 13 سالہ بچے سے کرایا گیا، جو مقتول خاندان کا فرد تھا۔
افغان طالبان حکام کے مطابق مجرم منگل نے تقریباً دس ماہ قبل خوست کے رہائشی عبد الرحمٰن اور اُس کے خاندان کے 13 افراد کو بے دردی سے قتل کیا تھا، جن میں 9 بچے بھی شامل تھے۔ مقدمے کی کارروائی مقامی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک چلی، جہاں اسے قصاص کے تحت سزائے موت سنائی گئی۔ اس سزا کی منظوری طالبان کے امیر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے دی۔
خوست کے اسٹیڈیم میں تقریباً 80 ہزار افراد جمع تھے جنہوں نے سزا کا عمل دیکھا۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اسٹیڈیم کے اندر اور باہر لوگ کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں۔ جیسے ہی فائر کی آواز گونجی، مجمع سے نعرے بلند ہونے لگے۔
افغان سپریم کورٹ کے بیان کے مطابق مقتول خاندان کو قاتل کو معاف کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، لیکن انہوں نے قصاص کا انتخاب کیا۔ مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ 13 سالہ لڑکے سے پوچھا گیا کہ کیا وہ معاف کرنا چاہتا ہے، لیکن اس نے انکار کر دیا اور پھر اس نے ہی قاتل پر گولی چلائی۔

خوست پولیس کے ترجمان نے تصدیق کی کہ مجرم نے پوری فیملی کا قتل بڑی سفاکی سے کیا تھا، جس کے بعد اسے قانون کے مطابق سخت سزا دی گئی۔
دوسری جانب دنیا بھر میں اس واقعے پر شدید تنقید سامنے آئی ہے۔ اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی رچرڈ بینیٹ نے اس عمل کو “غیر انسانی، ظالمانہ اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف” قرار دیتے ہوئے طالبان سے فوری طور پر سرعام سزائیں روکنے کا مطالبہ کیا۔
جس کے جواب میں طالبان حکومت نے ایک بار پھر سخت شریعت نافذ کرنے کا اعلان دوہرایا ہے۔
2021 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ طالبان کی جانب سے سرعام دی گئی 11ویں سزائے موت ہے۔ ماضی کی طرح اب بھی کوڑے، سنگسار اور اسی نوعیت کی سزائیں دوبارہ نافذ کی جا رہی ہیں، جن پر انسانی حقوق کی تنظیمیں شدید تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہیں۔