عدالت نے لے پالک والدین سے بچے کی حوالگی حقیقی والدین کو دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، جسٹس فیصل زمان خان نے سید ارشد علی کی درخواست پر 8 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ بچوں کی حوالگی کے کیس میں انکی خواہش اور ذہنی کیفیت کو مقدم رکھا جائے گا، سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق بچے کی رائے کو اہمیت دینا ضروری ہے، موجودہ کیس میں بچے نے لے پالک والدین کے ساتھ جانے کا بیان دیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت نے ایک ہفتے کے لیے بچے کو حقیقی والدین کے ساتھ بھیجا لیکن بچے نے دوبارہ پیشی پر پھر لے پالک والدین کے ساتھ جانے کا بیان دیا، بچے کی حوالگی کے کیس میں اصولی طور پر حقیقی والدین کو ترجیحی حق حاصل ہوتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ حقیقی والدین نے اپنی مرضی سے پیدائش کے وقت بچہ اپنے بھائی کو دیا، لے پالک والدین نے نو سال تک بچے کی پرورش کی، بچے کی موجودہ عمر تیرہ برس ہوچکی ہے، حقیقی والد کی 3 شادیاں اور 13 بچے ہیں اتنے بڑے خاندان میں بچے کو بھیجنا مناسب نہیں، حقیقی والدین یہ نہیں ثابت کرسکے کہ بچے کی بہتر پرورش نہیں ہوئی، 13 سالہ بچہ موجودہ خاندان کے ساتھ رہے یہی اسکا اصل ماحول ہے۔
عدالت نے کہا کہ بچہ بغیر کسی شکایت کے نو سال تک لے پالک والدین کے ساتھ رہا، ایک صبح اچانک بچے پر بم گرایا گیا کہ وہ جن کے ساتھ رہ رہا ہے وہ اصل والدین نہیں ہیں، بچے کو اچانک اجنبی ماحول میں بھیج دینا اس کے مفاد میں نہیں، بچے کے کیا جذبات ہونگے جب اسے پتہ چلا ہو گا کہ جن 6 بہنوں اور ایک بھائی کے ساتھ وہ رہا ہے وہ اسکے اپنے نہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ گھریلو تنازع کی بنیاد پر حقیقی والدین نے بچے کی حوالگی کا دعویٰ دائر کیا، موجودہ کیس میں بچے کی فلاح نہیں بلکہ گھریلو تنازع دعوے کی وجہ بنا، 2022 میں ٹرائل کورٹ نے بچہ لے پالک والدین سے لیکر حقیقی والدین کو دے دیا تھا، لے پالک والدین نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست گزار کے مطابق بھائی نے پیدائش کے وقت اپنی مرضی سے بچے انہں دیا، حقیقی والدین کے مطابق بچے کو کچھ عرصے کے لیے بھائی کو دیا تھا، حقیقی والدین حوالگی کے عارضی ہونے کا ثبوت نہ دے سکے، عدالت نے بچے کو حقیقی والدین کے حوالے کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتی ہے۔ حقیقی والدین بچے سے ملاقات کے لیے گارڈین کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔