انڈونیشیا میں تباہ کن سیلاب کا ذمہ دار ’شرارتی ہاتھ‘ کس کا ہے؟

انڈونیشیا کے جزیرہ سماٹرا میں شدید طوفان کے باعث آنے والے سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ میں 700 سے زائد جانیں ضائع ہوگئیں، جو 2004 کی تباہ کن سونامی کے بعد سب سے بڑی آفت قرار دی جا رہی ہے۔ اس سیلاب نے تباہی کا جو نقشہ چھوڑا ہے، اس نے مقامی آبادی کو غم اور غصّے میں مبتلا کر دیا ہے۔ ماہرین اس تباہی کو کس طرح دیکھ رہے ہیں، کیا یہ تباہی قدرتی آفات کا نتیجہ ہے یا کچھ اور حقائق بھی ہیں؟

رائٹرز کے مطابق ماہرین اسے نہ صرف موسمیاتی تبدیلی بلکہ جنگلات کی تیزی سے ہوتی کٹائی کا نتیجہ بھی قرار دے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سماٹرا میں بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی نے تباہی کو کئی گنا بڑھا دیا۔

ایک عارضی پناہ گاہ سے متاثرہ علاقے کے مقامی شخص ریلیواتی سریگار نے غم اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”کچھ شرارتی ہاتھ درخت کاٹ رہے ہیں، انہیں جنگلات کی پرواہ نہیں، اور اب ہم اس کی قیمت چکا رہے ہیں۔“

62 سالہ سریگار نے مزید کہا، ”بارش کی وجہ سے سیلاب تو آیا، لیکن اتنی بڑی تعداد میں درخت بہا دینا ممکن نہیں۔ وہ درخت بارش کی بوندوں سے نہیں گر سکتے۔“ انہوں نے یہ بات نہایت غصے کے اظہار کے ساتھ کہی، اس تباہی میں ہلاکتیں بھی بہت زیادہ ہوئیں۔

ایشیا میں سمندری طوفان کے باعث اموات ایک ہزار سے بڑھ گئیں

جزیرہ سماٹرا کے ڈسٹرکٹ تپنولی کے مقامی رہنما گس ایراوان پاساریبو نے کہا کہ اگر جنگلات محفوظ رہتے تو نقصان اس قدر بھیانک نہ ہوتا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پہلے ہی جنگلاتی علاقوں کو مختلف منصوبوں کیلئے جاری لائسنسوں پر اعتراضات اور وزارتِ جنگلات کو خبردارکرچکے ہیں، مگر متعلقہ وزارتوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔

تصویر: بشکریہ بلوم برگ
تصویر: بشکریہ بلوم برگ

مقامی رہائشیوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ سیلابی ریلوں کے ساتھ بڑی تعداد میں درختوں کے تنے بھی بہہ کر آئے، درختوں کی مسلسل کٹائی نے پہاڑی ڈھلوانوں کو کمزور کر دیا ہے، جس کے باعث بارش کے دوران کیچڑ اور ملبہ بستیوں پر ٹوٹ پڑا۔

ایشیائی ممالک میں سمندری طوفانوں سے تباہی، ہلاکتیں 1100 سے زائد

اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ شمالی سماٹرا میں پچھلے دو دہائیوں کے دوران لاکھوں ہیکٹر جنگلات ختم ہو چکے ہیں، جبکہ پورا ‘جزیرہ سماٹرا’ تیزی سے جنگل کا وسیع رقبہ کھو رہا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ سمندر میں بننے والے شدید طوفان نے خطرہ بڑھایا، لیکن اگر جنگلات محفوظ ہوتے تو نقصان اتنا زیادہ نہ ہوتا۔

تصویر بشکریہ: دی جکارتا پوسٹ
تصویر بشکریہ: دی جکارتا پوسٹ

ماحولیاتی تنظیموں نے سیٹلائٹ تصاویر کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ کچھ بڑے ترقیاتی منصوبوں، خصوصاً دریائے بتانگ ٹورو کے علاقے میں زیرِ تعمیر ہائیڈرو پاور پلانٹ، نے بھی ماحول کو نقصان پہنچایا ہے۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ جنگلات کو صنعتی سرگرمیوں کے لیے کھولا گیا، جس کے نتیجے میں اوپری علاقوں میں مٹی کا کٹاؤ بڑھا اور پانی کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔



AAJ News Whatsapp


حکام کے مطابق کئی کمپنیوں کے جنگلاتی علاقوں میں کام کرنے کے اجازت ناموں کی جانچ شروع کر دی گئی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کہیں غیرقانونی سرگرمیوں نے تباہی میں کردار تو ادا نہیں کیا۔ کچھ مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں نے حکومت کی جانب سے قدرتی وسائل کے انتظام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ غلط پالیسیاں بھی اس آفت کی وجوہات میں شامل ہیں۔

دوسری جانب متاثرہ علاقوں میں رہنے والے لوگ اب بھی خوفزدہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں کبھی اتنی بڑی تعداد میں درختوں کے تنے ساحل پر نہیں آئے تھے، لیکن اب صورتحال پہلے سے زیادہ خطرناک دکھائی دے رہی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جنگلات کی حفاظت اور غیر ذمہ دارانہ سرگرمیوں کے خلاف فوری اقدامات کیے جائیں، تاکہ مستقبل میں ایسی تباہ کاریاں دوبارہ جنم نہ لیں۔

Similar Posts