پاکستان کے ہاتھوں ایس 400 کی تباہی، بھارت کی نظریں نئے روسی دفاعی سسٹم پر

معرکۂ حق میں پاکستانی افواج کے ہاتھوں بدترین شکست کے بعد سے مودی حکومت نے تمام تر توجہ جنگی ہتھیاروں کی خریداری پر مرکوز کر رکھی ہے۔ گزشتہ ماہ امریکا سے دفاعی سازوسامان کے معاہدے کے بعد بھارت اب روسی صدر سے S-500 فضائی دفاعی سسٹم کی خریداری کا ارادہ رکھتا ہے۔

رواں سال مئی میں آپریشن سندور کی ناکامی کے بعد سے مودی سرکار نے دفاعی حکومت عملی کے نام پر جنگی سازو سامان اور ہتھیاروں کی خریداری تیز کردی ہے۔

آپریشن سندور کے دوران بھارتی فضائیہ کی جانب سے ‘گیم چینجر’ قرار دیے گئے روسی ساختہ دفاعی سسٹم ‘S-400’ کی ناکامی کے بعد بھارت نے روس سے جدید دفاعی سسٹم کے حصول کی کوششیں شروع کردی ہیں۔

بلومبرگ کے مطابق بھارت امریکی دباؤ کے باوجود روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے دورے کے دوران جدید جنگی طیاروں اور میزائل ڈیفنس شیلڈ کی خریداری پر بات چیت شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے تحت ایس یو -57 طیارے اور ایس -500 کے جدید ورژن پر گفتگو متوقع ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ ممکنہ معاہدہ بھارت کی امریکا کے ساتھ کسی بھی تجارتی ڈیل کو مشکل بنا سکتا ہے، کیونکہ امریکا پہلے ہی روس سے اسلحے کی خریداری پر اعتراض اٹھا چکا ہے۔

بھارتی سیکریٹری دفاع راجیش کمار سنگھ نے کہا کہ روس کے ساتھ بھارت کا دفاعی تعاون طویل المدتی ہے اور اسے روکنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ان کے مطابق بھارت روس اور امریکا دونوں سے دفاعی ساز و سامان خریدتا رہے گا۔

انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق بھارت ایک نئے اور مزید مضبوط فضائی دفاعی سسٹم کے حصول پر غور کر رہا ہے اور S-500 اس سلسلے میں تمام ضروریات کو پوری کرتا دکھائی دیتا ہے۔

واضح رہے S-500 اور دیگر فضائی دفاعی سسٹمز، دراصل ایک دکھائی نہ دینے والی ڈھال ہوتی ہے جو دور سے ہی دشمن کے طیارے، ڈرون یا دیگر فضائی اہداف کا پتا لگا کر انہیں میزائلوں کے ذریعے تباہ کر دیتی ہے۔

روس کی کمپنی الماز آنٹے کا تیار کردہ ایس -500 نظام ایس-400 کے مقابلے میں زیادہ رینج، زیادہ بلندی اور زیادہ پیچیدہ اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ خاص طور پر جدید بیلسٹک میزائلوں، ہائپر سونک گلائیڈ وہیکلز اور ہائپر سونک کروز میزائلوں کو روکنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

اس کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ کم زمینی مدار سیٹلائٹس یا خلائی سمت سے آنے والے خطرات کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔

عملی صلاحیتوں کے لحاظ سے جہاں ایس -400 ساڑھے 400 کلومیٹر تک اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے، وہیں S-500 کی رینج 600 کلومیٹر تک ہے۔ یہ بیک وقت دس تک بیلسٹک سپر سونک ٹرمینل وارہیڈز کا مقابلہ کرسکتا ہے۔

یاد رہے کہ بھارت کے پاس اس وقت 200 سے زائد روسی لڑاکا طیارے اور S-400 دفاعی شیلڈ کی متعدد بیٹریاں موجود ہیں، جنہیں مئی میں پاکستان کے ساتھ چار روزہ جھڑپ کے دوران بھی استعمال کیا گیا تھا۔

’گھوڑوں کی دوڑ میں گدھوں کو دوڑانے کا نتیجہ‘، بھارتی لڑاکا طیارے تیجس کے گرنے پر دلچسپ تبصرے

آپریشن سندور میں بھارتی فضائیہ کی دفاعی برتری کا پول کھلنے کے بعد گزشتہ ماہ دبئی ایئر شو میں بھی بھارتی فضائیہ کا تیجس لڑاکا طیارہ فضا میں کرتب کرتے ہوئے گِر کر تباہ ہوگیا تھا۔

یہ گزشتہ دو برس میں ’تیجس‘ طیارے کے گرنے کا دوسرا واقعہ تھا، جس نے بھارت کی دفاعی صنعت اور صلاحیتوں پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

اس سے قبل روس سے تجارت کے معاملے پر شدید تناؤ کے بعد اکتوبر میں بھارت اور امریکا کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ بھی سامنے آیا تھا جس کے تحت 10 سالہ فریم ورک معاہدہ پر دستخط ہوئے۔ جس کے تحت دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون، ٹیکنالوجی، توانائی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں نئی راہیں کھلنے کا امکان ہے۔

بلومبرگ نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی فوج کو لڑاکا طیاروں کی کمی کا سامنا ہے اور اسی وجہ سے روسی ساختہ جدید طیارے خریدنے کی تجویز حکومت کو بھیجی گئی ہے۔ تاہم رپورٹ کے مطابق پیوٹن کے اس دورے میں روسی فوجی ساز و سامان کی خریداری سے متعلق مذاکرات کے حتمی نتیجے تک پہنچنے کا امکان کم ہے۔

Similar Posts