پنجاب میں کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟

پنجاب میں کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے سرکاری اداروں، غیر سرکاری تنظیموں اور سماجی کارکنوں نے کہا ہے کہ اگر لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کر دی جائے، اور نکاح خوانوں، یونین کونسلوں اور پولیس کو باقاعدہ تربیت اور باہمی رابطہ فراہم کیا جائے، تو صوبے میں اس مسئلے پر نمایاں حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر چھ میں سے ایک لڑکی کی شادی 18 سال سے پہلے کر دی جاتی ہے، جو بچوں کی صحت، تعلیم اور مستقبل کے لیے سنگین چیلنج ہے۔

یہ گفتگو لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں ہونے والی اس تقریب میں سامنے آئی جس میں حکومت پنجاب، اقوام متحدہ کے اداروں، سماجی تنظیموں، نکاح رجسٹراروں اور مختلف محکموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ تقریب کا مقصد کم عمری کی شادی کی روک تھام کو سرکاری ڈھانچے کا مستقل حصہ بنانے کے لیے جاری اقدامات کا جائزہ لینا تھا۔ شرکاء نے واضح کیا کہ اس مسئلے کا حل صرف اسی صورت ممکن ہے جب بچوں کے تحفظ سے متعلق پالیسیوں کو سرکاری نظام میں مضبوط طریقے سے شامل کیا جائے۔

لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے فنڈ برائے آبادی اور گروپ ڈویلپمنٹ پاکستان کے تعاون سے 2024 سے اب تک 800 سے زیادہ نکاح رجسٹراروں اور یونین کونسل سیکریٹریوں کو تربیت فراہم کی جا چکی ہے۔ اس تربیت کا مقصد غیر قانونی شادیوں کی نشاندہی، روک تھام اور ریکارڈ کی درستگی کو بہتر بنانا ہے۔ راجن پور اور راولپنڈی میں نکاح خوانوں کی نگرانی کے لیے پائلٹ منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے، تاکہ رجسٹریشن کے عمل کو شفاف بنایا جا سکے۔

تقریب میں شریک محکموں کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ نکاح رجسٹراروں، مقامی حکومت، پولیس، صحت اور بچوں کے تحفظ کے اداروں کا باہمی رابطہ انتہائی اہم ہے، کیونکہ کم عمری کی شادی صرف ایک سماجی مسئلہ نہیں بلکہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر کئی اداروں کی مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے۔

ڈی جی لوکل گورنمنٹ احمد کمال مان نے کہا کہ نکاح رجسٹریشن کے نظام میں بہتری آئی ہے، مگر اس اصلاح کو مؤثر بنانے کے لیے مزید تربیت اور مضبوط نگرانی ضروری ہے۔ یو این ایف پی اے کی نمائندہ تانیا درّانی نے کہا کہ ادارہ جاتی اصلاحات کے بغیر کوئی بھی مہم دیرپا نہیں رہ سکتی۔ برٹش ہائی کمیشن کے نمائندے سعودی ال حسن نے حکومت پنجاب کے اقدامات کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یونین کونسل سیکریٹریوں اور نکاح خوانوں کا مضبوط کردار اس پورے نظام کو مؤثر بناتا ہے۔

چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیئرپرسن اور رکن پنجاب اسمبلی سارہ احمد نے کہا کہ کم عمری کی شادی بچوں کی تعلیم اور صحت کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ ان کے مطابق مجوزہ قانون میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے کم از کم عمر 18 سال مقرر کرنے کی تجویز بچوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے نہایت اہم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو صوبے بھر میں کم عمر بچوں کو ہراسانی، تشدد اور استحصال سے بچانے کے لیے تعاون فراہم کر رہا ہے، اور جلد ہی کم عمری کی شادی کی روک تھام سے متعلق صوبائی ایکشن پلان کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔

شرکاء نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جب نگرانی، تربیت اور جوابدہی سرکاری نظام کا مستقل حصہ بن جائیں تو ایسے اقدامات دیرپا ثابت ہوتے ہیں اور اس سے ہر بچے کو محفوظ مستقبل مل سکتا ہے۔

یونیسیف کے مطابق پاکستان میں کم عمری کی شادی کا مسئلہ اب بھی شدید نوعیت رکھتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ابتک ایک کروڑ نوّے لاکھ سے زائد لڑکیوں کی شادیاں کم عمری میں کی گئیں، جن میں سے 48 لاکھ لڑکیوں کی شادیاں 15 سال کی عمر سے پہلے ہوئیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ شادی کی قانونی عمر میں صوبائی اختلافات بھی ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ صرف سندھ اور اسلام آباد میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر ہے، جبکہ دیگر صوبوں میں اس خلا کے باعث لاکھوں لڑکیاں کم عمری میں گھریلو تشدد، محرومیوں اور صحت کے مسائل کا سامنا کرتی ہیں۔

Similar Posts