پائلٹس کی ذہنی صحت صرف ان کی ذاتی بھلائی کے لیے نہیں بلکہ مسافروں کی حفاظت کے لیے بھی نہایت اہم ہے۔ ہر پرواز میں سیکڑوں لوگوں کی جانیں پائلٹس کے فیصلوں اور توجہ پر منحصر ہوتی ہیں۔ ذہنی دباؤ، ڈپریشن یا اینزائٹی جیسے مسائل نہ صرف پائلٹ کی توجہ اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتے ہیں بلکہ حادثات کا خطرہ بھی بڑھا سکتے ہیں، لیکن عموماً پائلٹس اپنی ذہنی بیماری چھپاتے ہیں۔
ایئرلائنز کے درجنوں کمرشل پائلٹ چھوٹے سے چھوٹے نفسیاتی مسائل، جیسے افسردگی یا اضطراب، کو بھی چھپانے پر مجبور ہیں کیونکہ انہیں امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (FAA) کی جانب سے فوری طور پر فلائٹ سے روکے جانے اور کیریئر ختم ہونے کا شدید خطرہ لاحق رہتا ہے۔ روئٹرز کو دیے گئے انٹرویوز میں 24 سے زائد امریکی اور غیر ملکی پائلٹس نے بتایا کہ علاج یا میڈیسن کی اطلاع دینے سے لمبے اور مہنگے طبی جائزے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کئی مہینوں یا سالوں تک چل سکتا ہے۔
ذہنی بیماری اور نوکری جانے کا خوف اور معاشرے میں شرمندگی کا احساس اندر ہی اندر اس قدر بڑھ سکتا ہے کہ پائیلٹ کو خود کشی جیسے اقدام تک لے جاسکتا ہے۔ اس کی ایک مثال ڈیلٹا ایئر لائنز کے 41 سالہ پائلٹ برائن وٹکے کی ہے جو تین بچوں کے باپ تھے۔
برائن وٹکے کی والدہ، اینی وارگاس نے رائٹرز کو بتایا کہ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کا بیٹا ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو رہا ہے، انہوں نے بیٹے کو انہیں ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کے علاج کے لئے کہا مگر برائن نے انکار کر دیا۔ وہ اس بات سے خوفزدہ تھے کہ ڈپریشن کے علاج کے لیے کسی بھی قسم کی تھراپی یا دوا ان کا فلائٹ لائسنس خطرے میں ڈال سکتی ہے اور ان کی پیشہ ورانہ زندگی ختم ہو سکتی ہے۔
انہوں نے پائیلٹ برائن کے بارے میں بتایا کہ وبائی مرض کے دوران پروازوں میں کمی کی وجہ سے وِٹکے زیادہ تر وقت گھر پر گزارنے لگے، جس سے ان کی ذہنی صحت پر مزید منفی اثر پڑا۔
14جون 2022 کی صبح، وارگاس نے اپنے بیٹے سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن اس وقت اس کا فون آف تھا اور لوکیشن ڈیٹا بھی ظاہر نہیں ہوریا تھا۔ جب فون دوبارہ آن ہوا اور لوکیشن ظاہر ہوئی، تب تک وِٹکے نے خودکشی کر لی تھی اور ان کا جسم سالٹ لیک سٹی کے باہر، یوٹا کے پہاڑوں میں پایا گیا۔
وارگاس خاتون نے برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کے تجربات شیئر کر رہی ہیں کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ اپنے بیٹے کے غم کا اثر ایوی ایشن انڈسٹری میں ذہنی صحت کے بارے میں رویوں کو بدلنے میں مددگار ہو۔ اس کے ساتھ ہی رائٹرز نے وِٹکے کی اہلیہ سے تصدیق کر کے ان کے بیانات کی درستگی کی تصدیق بھی کی۔
ایف اے اے کے سخت پالیسیز کے تحت پائلٹس کو ہر چھ ماہ بعد جسمانی اور نفسیاتی جانچ سے گزرنا پڑتا ہے، جہاں ہلکا ذہنی دباؤ تو جلد کلیئر ہوجاتا ہے مگر جو پائیلٹس شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوں ایسے کیسز میں ایک سال سے زائد تاخیر ہو سکتی ہے۔ پائلٹ کمیونٹی میں ایک مشہور جملہ ”اگر آپ جھوٹ نہیں بول رہے تو آپ فلائٹ نہیں کر رہے“ اسی خوف کی عکاسی کرتا ہے، جیسا کہ 2023 کی ایک تحقیق میں 5,170 امریکی اور کینیڈین پائلٹس میں سے نصف نے صحت کی دیکھ بھال سے گریز کی وجہ بتائی۔
ایک امریکی پائلٹ ٹرائے مئرٹ نے 2022 میں رضاکارانہ طور پر اپنا علاج شروع کیا اور 18 ماہ بعد 11 ہزار ڈالرز کی لاگت کے بعد واپس فلائٹ پر لوٹے، جہاں انہوں نے لانگ ہال فلائٹس جیسے شنگھائی اور ہانگ کانگ سنبھالنے کی تربیت بھی حاصل کی۔ ان کا کہنا ہے کہ علاج نے انہیں بہتر پائلٹ بنایا، مگر انشورنس کی کم کوریج اور تاخیر نے مالی نقصان پہنچایا۔ اسی طرح 36 سالہ ایلزبتھ کارل کو 2021 میں اینٹی اینگزائٹی دوائی کی وجہ سے ایک سال سے زائد انتظار کرنا پڑا۔
جون 2025 میں ائر انڈیا کے بوئنگ 787 ڈریم لائنر کے احمد آباد میں کریش ہونے سے 260 افراد ہلاک ہوئے، جہاں ابتدائی رپورٹ میں میکینیکل پرابلم کہ جگہ پائلٹس کی بیماری کی چھٹیوں (sick leave) میں اضافہ نوٹ کیا گیا۔ اسی طرح 2023 میں الاسکا ایئرلائنز کے سابق پائلٹ جوزف ڈیوڈ ایمرسن کو نفسیاتی بریک ڈاؤن اور مشروم استعمال کے الزام میں سزا ہوئی۔ یہ واقعات پائلٹ ویل بیئنگ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں، اور ماہرین تیز طبی جائزوں اور مالی مدد کی تجویز دیتے ہیں تاکہ حقیقت سامنے آئے اور پائیلٹ کی ذہنی صحت اور مکمل فٹنس کے ساتھ ائیر لائن اپنے تمام آپریشنز انجام دے۔
