بسنت کی واپسی: خوشیوں کی بہار یا خطرات کا نیا موسم؟

پچیس سال بعد پنجاب حکومت نے بسنت اور پتنگ بازی کی مشروط اجازت دے دی ہے۔ اعلان سنتے ہی لاہور کی فضا جیسے ایک پرانی یاد سے بھرگئی، گلیوں میں شور، چھتوں پر رنگ اور بہار کے استقبال کا وہ مخصوص جوش۔ مگر اس خوشی کے ساتھ ایک تلخ حقیقت بھی جڑی ہوئی ہے… وہ سب حادثات، زخمی بچے، کٹے گلے، اور بے شمار جانیں، جن کی وجہ سے یہ کھیل پابندی تک جا پہنچا تھا۔

حکومت نے اس بار بڑے دعوے کیے ہیں۔ ’’صرف سوتی ڈور‘‘ چلے گی، ہر پتنگ اور ڈور پر کیو آر کوڈ ہوگا، دکاندار سے لے کر بنانے والے تک سب کی رجسٹریشن لازمی۔ دھاتی یا کیمیکل ڈور بنانے اور بیچنے والوں کے لیے تین سے پانچ سال قید اور بھاری جرمانے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کے لیے پتنگ اُڑانے پر پابندی، خلاف ورزی پر والدین کو جرمانہ۔ کاغذ اور فریم کے سائز تک ضابطے میں۔ وغیرہ وغیرہ۔

کاغذ پر یہ سب کافی مضبوط لگتا ہے۔ مگر سوال وہی پرانا ہے کہ کاغذ کے ضابطے چھتوں پر اُڑتی پتنگ کو واقعی کنٹرول کرسکتے ہیں؟

اس ملک میں قانون لکھنے والوں کا ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے۔ قانون بنتا ہے، عملدرآمد کہیں ہوا نظر نہیں آتا۔ ’’انسداد پتنگ بازی ایکٹ‘‘ بھی لاکھوں گرفتاریوں اور ہزاروں ضبطی کارروائیوں کے باوجود کاغذ ہی میں رہا۔ پتنگیں ضبط ہوئیں، بچے پکڑے گئے، مگر ’’قاتل ڈور‘‘ بنانے والوں پر ہاتھ ڈالنے کی باری کبھی نہیں آئی۔ بازار میں مال آسانی سے دستیاب رہا، اور اوپر کہیں نہ کہیں ’’اوپری کمائی‘‘ کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔

پتنگ کٹنے پر ’’بوکاٹا‘‘ کی آوازیں لگانے والے، انسانی گلا کٹنے پر خاموش رہے۔

یہ تضاد پاکستانی معاشرے کا اصل المیہ ہے۔ عملاً حادثات روکے نہیں گئے۔ فیصل آباد سے لاہور تک درجنوں واقعات رپورٹ ہوئے، بائیک چلانے والے گلے پر ڈور لگنے سے زخمی، بعض مستقل معذور، بعض کی جان تک چلی گئی۔ حکومت پابندی لگاتی رہی، عوام قانون توڑتے رہے، اور درمیان میں اعداد و شمار بڑھتے گئے۔

اس بار بھی حکومت ایک بڑے جشن کا اشارہ دے رہی ہے۔ بسنت کو ’’ثقافتی میل‘‘ کا درجہ مل چکا ہے۔ سیاحتی آمدنی، کاروبار، میڈیا کوریج، سب کچھ۔ لیکن اگر ہیلمٹ پر حفاظتی راڈ نہ ہو، اگر ڈور کی پیمائش نہ چیک ہوئی، اگر چھتوں پر اندھا دھند مقابلے شروع ہوئے، تو کیا پھر وہی کہانی نہیں دہرائی جائے گی؟

اصل خطرہ پتنگ نہیں ہے۔ خطرہ وہ ’’منافقت‘‘ ہے جس میں سستی شہرت، مقابلے کی ضد، غیر قانونی ڈور اور لاپرواہی شامل ہیں۔ پتنگ تو ایک کاغذ ہے۔ جان اس وقت جاتی ہے جب شوق عقل سے تجاوز کر جائے۔

حکومت کہتی ہے کہ اس بار سب کچھ ریگولیٹڈ ہوگا۔ مگر عملدرآمد صرف بیانوں سے نہیں ہوتا۔ پنجاب میں قانون کاغذ پر ہمیشہ مضبوط رہا، مگر گلی میں کمزور۔ یہی وجہ ہے کہ بسنت پر تنقید بھی ضروری ہے۔ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو… دھاتی یا کیمیکل ڈور بنانے والوں کے خلاف اصل کارروائی ہو، پولیس چھتوں پر دوڑتے بچوں کے بجائے مینوفیکچرنگ نیٹ ورک پکڑے، پتنگ بازی کےلیے مخصوص اور محفوظ مقامات مختص ہوں، موٹرسائیکل سواروں کے لیے حفاظتی راڈ اور ماسک ضروری ہوں، مانیٹرنگ ٹیمیں صرف کاغذی نہ ہوں بلکہ میدان میں نظر آئیں۔ ورنہ تاریخ خود کو دہرانے میں دیر نہیں لگاتی۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم معاشرہ زیادہ تلخ ہوتا ہے۔ شاید بسنت کی واپسی لوگوں کو کچھ رنگ، کچھ تفریح واپس دے۔ مگر کھیل، کھیل رہنا چاہیے، کسی کا سوگ نہیں بننا چاہیے۔

بہت سال پہلے بسنت لاہور کی پہچان تھی۔ نیلے آسمان پر پیلے، نیلے، گلابی رنگ لہراتے تھے۔ چھتوں پر ہنسی تھی، گلیوں میں دوڑتے قدم تھے۔ اب ڈر یہ ہے کہ کہیں اس ہنسی میں پھر چیخیں شامل نہ ہوجائیں۔ اگر حکومت صرف اجازت دے کر خاموش بیٹھ گئی، اگر ضابطے صرف اشتہار تک رہے، تو پھر ’’بہار کے انتظار‘‘ میں شہر دوبارہ خون سے نہ بھر جائے۔ بسنت کو واپس لانا شاید آسان ہے۔ مگر بسنت کو محفوظ رکھنا سب سے مشکل کام ہے۔

وقت بتائے گا کہ یہ فیصلہ جشن کی بہار لایا یا خطرات کی ہوا۔ ابھی کےلیے ایک ہی دعا کی جا سکتی ہے کہ پتنگیں آسمان میں اُڑیں، اور انسان سلامت رہیں۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

Similar Posts