ملکی ترقی میں بڑی رکاوٹ کرپشن

پچھلے دنوں ایک وفاقی وزیر کا بیان نظر سے گزرا کہ جس میں آپ نے فرمایا کہ پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہے۔ سوال یہ ہے کہ کرپشن کرتا کون ہے؟ اگر حکومت کو پتہ ہے کہ کرپشن ہی پاکستان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے تو اس کو روکنا کس کی ذمے داری ہے؟ اور اب تک اس پر حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں؟ اور اس طرح کے دیگر سوالات پوچھے جا سکتے ہیں۔

اب اگر عوام ان سوالات کے جوابات دے گی تو حکومت کو شکایت ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ معاملات فوجداری یا تکنیکی بھی ہوجائے۔ فوجداری ہونے کی صورت میں سزا کا خوف ہے اور تکنیکی ہونے کی صورت میں سوفٹ ویئر اپڈیٹ کا خطرہ ہے۔

ہم دونوں کے متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ ہمارا شمار عوام میں ہوتا ہے کہ جس سے ہر ساہوکار، سرمایہ دار اور سامراج کمانا چاہتا ہے۔ عوام سے روپیہ بٹورنے پر سب متفق ہیں تاہم کمائی کے حصوں پر کبھی کبھی جھگڑا بھی ہوجاتا ہے۔ ایک گجراتی کہاوت ہے کہ ”جینوں راجہ ویپاری اونی پرجا بھکاری” یعنی جہاں کا راجہ یا حکومت عوام سے کاروبار کرے گی تو وہاں کے عوام بھکاری بن جائیں گے جو ہمارے یہاں ہورہا ہے اور ہم اس کو ہوتے ہوئے دیکھ بھی رہے ہیں۔

اس ملک میں کرپشن ایک پوری سائنس ہے بلکہ پولیٹیکل سائنس ہے کیونکہ کرپشن اور پولیٹکس یعنی سیاست کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اور کسی ایک یا دونوں کے اترنے سے سب کچھ بے نقاب ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اس لیے تمام فریقین اس کو قائم و دائم رکھنے پر ”اتفاق” رکھتے ہیں اور اس اتحاد میں کسی سیٹھ، ملک، چوہدری، خان، میاں اور حتی کے حاجی صاحب میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔

ہمارے ملک میں کرپشن ایک پیشہ بلکہ فن کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ جیسے ہی کوئی شخص کسی کلیدی عہدے پر پہنچتا ہے جہاں اوپر کی کمائی کے مواقع ہوں تو سب سے پہلے تو اس کے ڈھیر سارے سامنے کے آدمی (یہ فرنٹ مین کی اردو ہے کیونکہ دلال لکھنا معیوب سمجھا جاتا ہے) اوپر، نیچے، دائیں، بائیں غرضیکہ ہر طرف سے آتے ہیں کہ وہ سودا کروا سکے اور یہ سب عوام میں سے ہوتے ہیں اور عام طور پر شور وہ مچاتے ہیں جنھیں اس میں شامل ہونے کا یا بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے یا اشنان کرنے کا موقعہ نہیں ملتا۔ سودوں کو مزید کاروباری رنگ دینے کے لیے بڑے بڑے بزنس اسکول سے پڑھے ہوئے کاروباری منیجر آتے ہیں تاکہ اس پوری کاروائی کو کاروباری رنگ دیا جاسکے اور وہ بھی اتنا چوکھا کہ کسی طرح اترنے نہ پائے۔

اس کے بعد اکاؤنٹنٹ آتے ہیں تاکہ اس تمام کاروباری کارروائی کو قانونی شکل دی جاسکے اور حساب کے کھاتوں میں اندراج کیا جاسکے، عام طور یہ اندراج اس طرح کیا جاتا ہے کہ یہ ٹیکس سے محفوظ یا مستثنٰی رہے، اس کے باوجود کوئی مسئلہ ہونے کی صورت میں قانونی معاونت عندالطلب رہتی ہے۔ اس کے بعد سیاستدان بجا طور پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی اور اگر کرپشن ثابت ہوجائے تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ جب اتنے سارے ”پیشہ ور” لوگوں نے اس پر محنت کی ہو تو کرپشن کیسے پکڑی جاسکتی ہے؟ اور جب پکڑی ہی نہیں جائے گی تو ثابت کیسے ہوگی؟ ان تمام سودوں میں عوام ہی بالواسطہ یا بلاواسطہ شریک کاروبار ہوتے ہیں اور آخر میں شریک ستم بھی عوام ہی ہوتے ہیں۔

ہم اس حقیقت کو مانیں یا نہ مانیں کرپشن  ہمارے ملک کی جڑوں میں شامل ہوکر اس سے وابستہ لوگوں کا جز بدن بن چکی ہے اور ان تمام لوگوں نے اس کو قبول کرکے نظام کا حصہ مان لیا ہے۔ اس لیے اب یہ جو بھی ہے ہمارے نظام کا حصہ ہے اور اس سے چھٹکارا نظام کی تبدیلی کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔

مجھے امید ہے کہ آیندہ جو بھی حکومتی اہلکار کرپشن کے حوالے سے بیان دے گا تو مکمل بیان دے گا تاکہ کوئی ابہام نہ رہے۔ ابھی تو ہم نے آئی ایم ایف کی رپورٹ پر بات نہیں کی کیونکہ وہ رپورٹ اوپر تک جاتی ہے۔ اگر آئی ایم ایف نے کرپشن کے خاتمے پر زیادہ زور دیا تو ہوسکتا ہے کہ ہم آئی ایم ایف کو ہی چھوڑ دے۔ ویسے مجھے آئی ایم ایف سے اس کے سوا چھٹکارے کی کوئی اور صورت نظر نہیں آتی کیونکہ ہمارا تو یہی حال ہے کہ ”نہ پائے رفتن، نہ جائے ماندن” بس اس تھوڑے لکھے کو بہت جانئے اور جو اردو میں نہ کہہ سکے اس کو فارسی میں لکھ دیا ہے۔

Similar Posts