کلامِ اقبال بخط ِاقبال

خالد مسعود ایک حیرت انگیز انسان ہے۔ کالم تو خیر اس کے حد درجہ شاداب ہوتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر تحریر میں پختگی اور سادگی‘ خاص آمیزش کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ خالد سے میری نسبت تقریباً چار دہائیوں کی ہے۔ جب میں اے سی‘ انڈ ر ٹریننگ ‘ ملتان تھا۔ دراصل وہ صفدر سہیل کا دوست تھا۔ صفدر میرا بیچ سیٹ تھا۔ ملنا جلنا تو خیر ہر دم تھا۔ ہر دم ہنستا مسکراتا نوجوان ۔ اس سے پہلی ملاقات‘ صفدر سہیل کے دفتر میں ہوئی تھی۔ خالد ایک چھبیلا سا نوجوان تھا۔ اس وقت‘ داڑھی نہیں رکھی تھی۔ ویسے اس کی آواز اور طرز تکلم ہمیشہ سے منفرد تھی۔ بے تکلف سا لڑکا ‘ مگر لا پرواہ بالکل نہیں تھا۔

ملتان سے میرا تبادلہ ‘ شکر گڑھ ہو گیا۔ دونوں شہروں میں فاصلہ اتنا زیادہ تھا کہ جلد جانے کا اتفاق ہی نہیں ہوا۔ پھر سرکاری نوکری کی غلام گردشوں میں گم سا ہو گیا۔ مہینے‘ سالوں میں بدل گئے۔ چند برس بعد بہاولپور تبادلہ ہو گیا۔ تو کبھی کبھی‘ ملتان بھی آ جاتا تھا۔ مگر وہ شہر‘ کم از کم میرے لیے بدل سا گیا تھا ۔ یا شاید‘ میں بدل چکا تھا۔ بلکہ دیکھا جائے تو زندگی کا ایک طویل سفر ‘ پلک جھپکتے بسر ہو گیا۔ آج سے ٹھیک تیرہ برس پہلے ‘ کالم لکھنا شروع کیا۔ تو دیگر ساتھیوں کی چمکتی تحریریں بھی نظر سے گزرنے لگیں۔ خالد بھی اس میں شامل تھا بلکہ سرفہرست تھا۔

کیونکہ‘ اس جیسا برجستہ کالم لکھنا‘ حد درجہ مشکل کام ہے، ہاں! ایک بات یاد آئی۔ خالد بطور مزاحیہ شاعر بھی لوگوں کے سامنے آ گیا۔ ٹی وی اور یوٹیوب پر خالد کو دیکھ کر خوشی ہوتی تھی بلکہ ہوتی ہے۔لیکن‘ یہ نکتہ میری عقل سے بالاتر تھا کہ خالد نے سنجیدہ شاعری کے بجائے‘ شگفتہ شاعری کو کیوں منتخب کیا۔ ویسے یہ سوال آج بھی میرے ذہن میں موجود ہے مگر پوچھتا نہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ شاعری ‘ جذبات کو الفاظ کا پہناوا دینے کا نام ہے۔ خالد مسعود تو ایک سنجیدہ طبع انسان ہے پھر سنجیدہ شاعری کی طرف میلان کیسے ہوا؟ بہر حال ‘ یہ ذاتی مسئلہ ہے۔ مجھے اس کا جواب بالکل تلاش نہیں کرنا۔ ویسے‘ لوگ‘ اس کی شاعری کو مزاحیہ کہتے ہیں۔ مگر طالب علم کی نظر میں وہ حد درجہ سنجیدہ شاعری ہے۔ دوسری بات یہ کہ خالد‘ شعروں میں لفظوں کے چناؤ کے بارے میں حد درجہ ذمے دار انسان ہے۔ کمال یہ ہے کہ اس کی پوری نظم یا قطعہ میں آپ کسی ایک لفظ کو بھی اوپر نیچے نہیں کر سکتے۔ لفظوں کی مالا‘ جس طرح پروئی گئی ہے وہ اپنی اصل صورت میں ہی جادوئی ہے۔

مگر میرا آج کا موضوع ‘ بالکل مختلف ہے۔ ایک ڈیڑھ برس سے خالد سے گاہے گاہے بات چیت ہونی شروع ہو گئی۔ یقین فرمائیے۔ کبھی بھی یہ معلوم نہیں پڑا‘ کہ درمیان میں دہائیاں گزر چکی ہیں۔ وہی بے ساختگی اور وہی خلوص۔ علم نہیں تھا کہ خالد کی اہلیہ ‘ خدا کے حضور پیش ہو چکی ہیں۔بہر حال‘ یہ صدمہ ‘ خالد نے بڑی ہمت سے برداشت کیا ہے۔ اسے سفر کرنے کا شوق ہے۔ آج آپ کے پاس لاہور بیٹھا ہے۔

دو دن کے بعد‘ جرمنی میں پایا جائے گا۔ دراصل خالد کی بیٹیاں ‘ اس کے پاؤں کی اصل زنجیر ہیں۔ وہ باہر کے ممالک میں جا بسیں ہیں۔ خالد‘ محبت کی زنجیر سے بندھا ہوا ہے۔ ملکوں ملکوں پھرتا ہے۔اس میں یہ بھی اضافہ ہوا ہے کہ اپنے پرانے دوستوں کے پاس بھی آتا جاتا رہتا ہے۔ اس کے چاہنے والے ‘ ہر ملک میں موجود ہیں۔ مگر خالد صرف ان لوگوں سے ملتا ہے جن کی رفاقت میں وہ خوش رہے۔ چند دن پہلے ‘ خالد سے طویل ملاقات ہوئی تو بتانے لگا کہ ایک انوکھا کام مکمل کر رہا ہے۔

علامہ اقبال کے اپنے ہاتھوں سے تحریر کیے ہوئے اشعار کو کسی خوش نویس سے لکھوانے کا خوبصورت کارنامہ۔ میرے علم میں قطعاً نہیں ‘ کہ یہ انوکھا ‘ اور حددرجہ مشکل فعل‘ اس کے ذہن میں کیسے آیا۔ مگر وہ ایک زرخیز ذہن کا مالک ہے۔ ایک دن دفتر آیا۔ خالد مسعود نے میری غیر موجودگی میں‘ میز پر اپنے اس حد درجہ کمال کام کو کتاب کی صورت میں رکھوا دیا تھا۔ خود‘ حسب معمول ملتان جا چکا تھا۔ حضور‘ جب اس کی ترتیب و تدوین شدہ ‘ کتاب پڑھنی شروع کی‘ تو وجد اور لطف کی کیفیت میں چلا گیا۔ کتاب کا نام ہے۔’’کلام ِ اقبال‘ بخط ِاقبال‘‘ کتاب پر علامہ کی شیروانی میں ملبوس ایک خوبصورت تصویر موجود ہے۔ اور اس پر ان کے اپنے ہاتھوں سے لکھا ہوا ۔ شعر موجود ہے۔

ا ٹھ کے خورشید کا سامان ِسفر تازہ کریں

نفس سوختہ شام و سحر تازہ کریں

خالد نے انتساب اپنے والد محترم کے نام کیا ہے۔ جس پر درج ہے۔ ’’علامہ اقبال سے متعلق کتاب پر انتساب کے لیے ان سے بڑھ کر بھلا اور کون حقدر ہو سکتا ہے‘‘۔ مجھے علم نہیں کہ ‘ خالد‘ حضرت علامہ اقبال کی اپنی تحریر کہاں سے لے کر آیا ہے؟ پر صاحب‘ کمال جاودان تدوین ہے۔ انوکھا اور ہمیشہ یاد رکھا جانے والا کام۔ خالد مسعود نے ‘ شروع میں اپنا لکھا ہوا ایک خوشبو دار مضمون بھی شامل کیا ہے جس کا عنوان ہے ’’علامہ اقبال‘ ابا جی اور میں‘‘۔ اس میں سے چند اقتباسات ‘ خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

مجھے علامہ اقبال سے محبت ہے اور اس محبت کے کئی ادوار اور کئی پرتیں ہیں۔ بچپن ‘ لڑکپن‘ جوانی اور اب بڑھاپے کی طرف تیزی سے سرکتی ہوئی عمر۔ ہر دور میں یہ محبت اپنے رنگ اور خدوخال بناتی رہی لیکن کیا مزے کی بات ہے کہ ہر بار نیا رنگ چڑھنے پر بھی پچھلا رنگ نہ مانند پڑا اور نہ اس نئے رنگ نے پچھلے رنگ کو اپنے نیچے ہی چھپایا۔ ہر رنگ پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا اور دمکتا رہا۔

’’ان ساری باتوں اور وجوہات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اصل بات یہ ہے کہ میری علامہ اقبال سے محبت کی سب سے مضبوط کڑی ابا جی کی علامہ اقبال سے محبت تھی اور محبت بھی کوئی ایسی ویسی؟سو محبت کی یہ ٹرائینگل کچھ ایسی ہے کہ ابا جی کو علامہ سے محبت اور مجھے ابا جی سے محبت تھی اور آپ جس سے محبت کرتے ہو اس کا محبوب آپ کا محبوب ہوتا ہے یا رقیب ‘ اگر آپ کا محبوب آپ کو نظر انداز کر کے کسی دوسرے کو محبوب رکھے تو پھر آپ کے محبوب کا محبوب آپ کا رقیب بن جاتا ہے۔

اور اگر آپ کا محبوب کسی دوسرے سے محبت کرتے ہوئے آپ پر بھی جان نچھاور کرے تو ایسے میں آپ کے محبوب کا محبوب‘ آپ کا بھی محبوب بن جاتا ہے۔ ابا جی کی محبت کی ایک کڑی جہاں علامہ اقبال تھے تو وہیں دوسری کڑی جو یقیناً پہلی کڑی سے بھی مضبوط تھی، وہ میں تھا۔ ایسے میں بھلا یہ کس طرح ممکن تھا کہ ابا جی کی محبت کی یہ دو کڑیاں آپس میں نہ ملتیں۔ سو یہ عاجز علامہ اقبال سے اس محبت کی تجدید میں لگا رہتا ہے جو ابا جی مرحوم میرے حوالے کر گئے ہیں۔ محبت کے اس پودے کو پانی دیتا رہتا ہوں جو ابا جی میرے پاس چھوڑ گئے تھے۔ علامہ اقبال سے محبت وہ غیر منقولہ وراثت ہے جو مجھے ابا جی کی طرف سے ملنے والی دیگر منقولہ و غیر منقولہ وراثت کے ساتھ ملی تھی‘‘۔

’’مجھے نہیں یاد کہ سردیوں کی کوئی رات ایسی گزری ہو کہ ہم سب گھر والوں نے ہال کمرے میں چوپال نہ لگائی ہو۔ اب جیسا نہیں کہ گھر والے ایک کمرے میں بھی بیٹھے ہوں تو ایک دوسرے سے کٹے ہوئے اپنے اپنے موبائل فون پر اس طرح مصروف ہوں کہ ایک دوسرے کی موجودگی سے ہی بے خبر ہو جائیں۔ ہر بندہ سارے دن میں ہونے والی کسی خاص کارروائی کو بیان کرتا‘ اسکول کے قصے چلتے۔

ابا جی دین کی بات کرتے ۔ ایک دو احادیث سناتے‘ کسی سے دعائے قنوت سن لیتے۔ کبھی وضو کرنے کی دعا یاد کرواتے۔ لیکن مجھے سب سے زیادہ مزہ تب آتا جب ابا جی اپنی مخصوص لے میں فارسی کے اشعار اور خاص طور پر ایرانی شاعرقآنی کے قصائد اور علامہ اقبال کی شاعری سناتے۔ ایمانداری کی بات ہے پانچ چھ سال کے بچے کے لیے قآنی کے فارسی قصائد اور علامہ اقبال کی اردو شاعری ایک جیسی ہی تھی لیکن اس کی غنائیت اس چھوٹے سے بچے کے دل و دماغ پر ایسی نقش ہے کہ میں چھ عشرے بعد بھی‘ جب چاہوں ایک کمرے میں رضائی لپیٹ کر‘ بڑے سے پلنگ پر ابا جی کے پہلو میں بیٹھ کر اپنے سامنے پتھر والے کوئلوں کی دہکتی ہوئی انگیٹھی کی موجودگی محسوس کر سکتا ہوں اور ہاں کمرے میںگونجتی ہوئی ابا جی کی آواز میں علامہ اقبال کا مکالمہ ابلیس اور جبریل سن سکتا ہوں۔ یہ علامہ اقبال سے پانچ چھے سالہ بچے کا تعارف بھی تھا اور محبت کی ابتدا بھی‘‘۔

کتاب کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ ایک صفحہ پر علامہ اقبال کی تحریر ان کے اپنے رسم الخط میں موجود ہے۔ اور سامنے والے صفحہ پر خوش نویس نے وہی کلام لکھا ہے۔ یقین فرمائیے کہ اقبال کی اپنی تحریر‘ ایک خزانہ ہے۔ اور برادرم خالد مسعود نے اسے نئے انداز سے تدوین کر کے‘ علامہ کے عاشقوں پر ایک احسان کیا ہے۔ میرے جیسا جاہل انسان تو جب بھی علامہ کے شعر پڑھتا یا سنتا ہے تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ آخر میں یہی عرض کرونگا کہ خالد یار!‘آپ جو کچھ بھی کرتے ہو‘ کمال کرتے ہو۔ آباد رہو شاداب رہو۔

Similar Posts