ایران میں ستمبر سے بارشوں کی امید بندھ جاتی ہے مگر اس بار گذرے تین ماہ میں اب تک ایک انچ سے بھی کم بارش ہوئی ہے۔یہ مقدار روائیتی بارانی مقدار کے مقابلے میں محض انیس فیصد ہے۔قلتِ آب کے اعتبار سے یہ سال گذری نصف صدی میں سب سے خراب ہے۔
کوہ البرز کے دامن میں بنے جن پانچ ڈیموں سے تہران کو پانی ملتا ہے۔ان ڈیموں کی جھیلوں میں اس وقت گنجائش سے دس فیصد سے بھی کم پانی ہے۔جب کہ تیس لاکھ آبادی والے دوسرے بڑے شہر مشہد کے آبی ذخیرے میں صرف تین فیصد پانی ہے۔شمال مغربی ایران کی سب سے بڑی ارمیا جھیل اب محض اپنی عظمتِ رفتہ کا نشان ہے۔ جھیل کا بیشتر پانی اردگرد ہونے والی وسیع کاشت کاری میں صرف ہو گیا۔
پانی کی قلت کی ایک بڑی وجہ مسلسل مغربی اقتصادی پابندیوں کے سبب خوراک میں خودکفیل ہونے کا ریاستی فیصلہ ہے۔کم ازکم پچاسی فیصد غذائی خودکفالت کا ہدف حاصل کرنے کے لیے انقلاب کے بعد بہت سے ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر سے زیرِ کاشت زمین میں دوگنا اضافہ ہوا۔حالانکہ بیشتر زرعی زمین بارانی ہے۔چنانچہ جو بھی پانی دستیاب ہے اس کا نوے فیصد آبپاشی میں صرف ہو جاتا ہے اور اب جب کہ مسلسل قحطِ آب ہے زرعی زمین بھی پیاسی ہے۔
حکام کہتے ہیں کہ شہری اپنی ضرورت سے بیس فیصد کم پانی استعمال کرکے قومی ذمے داری پوری کریں۔اگر ایسا ہو بھی جائے تب بھی کتنا فرق پڑے گا۔ کیونکہ جتنا پانی میسر ہے اس کا صرف آٹھ سے دس فیصد ہی گھریلو ضروریات میں استعمال ہوتا ہے۔
نوے فیصد پانی صرف کرنے والی زرعی پالیسی راتوں رات اس لیے تبدیل نہیں ہو سکتی مبادا شہروں کی سماجی بے چینی دیہی آبادی میں نہ در آئے۔جب کہ زرعی ڈھانچہ بھی اتنا کہنہ ہو چکا ہے کہ تیس فیصد فصل منڈی تک پہنچتے پہنچتے ضایع ہو جاتی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نوے فیصد پانی استعمال کرنے والی زراعت کا کل قومی آمدنی میں حصہ محض بارہ فیصد اور روزگار میں صرف چودہ فیصد ہے۔
اگر پانی کے کفایت شعارانہ استعمال کے لیے جدید ٹیکنالوجی برتی جائے تو تقریباً آدھا زرعی پانی بچایا جا سکتا ہے اور موجودہ پیداوار میں بھی کمی نہیں ہو گی۔ٹیکنالوجی کے حصول میں مغربی پابندیوں کو اس لیے جواز نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ روس ، چین اور بھارت جیسے ممالک سے ایران کے مستحکم تجارتی تعلقات ہیں۔ان سے باآسانی ایسی ٹیکنالوجی حاصل ہو سکتی ہے مگر پھر ادارہ جاتی بدنظمی ، محکمہ جاتی مسابقت اور مخصوص مفادات فیصلہ سازی میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
اگرچہ صحافت ریاست کے کنٹرول میں ہے پھر بھی آبی بحران اتنا شدید ہے کہ خود سرکاری میڈیا بھی دبے لفظوں میں آبی پالیسیوں پر تنقید کر رہا ہے۔مثلاً اخبار اعتماد نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ نااہل منتظمین کلیدی مناصب پر بیٹھے ہوں تو پھر تو یہی ہونا ہے۔جب کہ روزنامہ شرق کا خیال ہے کہ سیاسی مصلحتوں پر ماحولیاتی مستقبل قربان کیا جا رہا ہے۔
تیل اور گیس کے زیادہ تر پلانٹس بھی بارانی یا نیم بارانی علاقوں میں ہیں اور انھیں بھی کافی پانی درکار ہوتا ہے۔
آبادی میں اگرچہ گزشتہ چالیس برس میں دوگنا اضافہ ہو گیا ہے اور آبی تقسیم کاری کا ڈھانچہ اس قدر فرسودہ ہو چکا ہے کہ صاف پانی کا کم ازکم تیس فیصد حصہ صارف تک پہنچنے سے پہلے ہی رستی پائپ لائنوں اور چوری میں ضایع ہو جاتا ہے۔جب کہ واٹر ری سائیکلنگ کا ڈھانچہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔اس پر مستزاد ماحولیاتی تبدیلی کے سبب موسموں کی بیترتیبی اور موسمیاتی شدت میں بتدریج اضافہ ہے۔موسمِ گرما میں درجہ حرارت اکثر پچاس سینٹی گریڈ کی حد پار کر جاتا ہے۔گرمی میں اضافے اور مسلسل خشک سالی نے کاریزوں کا قدیم نظام بھی درہم برہم کر دیا ہے۔
ایران کے رہبرِ اعلیٰ علی خامنہ ای نے چودہ برس پہلے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ پانی ضایع نہ کریں۔مگر پانی کی انتظامی خامیاں اور مستقبل کی حکمتِ عملی تیار کرنے میں غیر سنجیدگی برقرار رہی۔جب کہ آبی وسائل گزشتہ روز نہیں بلکہ سالہا سال سے ابتری کی طرف گامزن ہیں۔
اب جنتا ان سرکاری دعوؤں پر بھی کان دھرنے کو تیار نہیں کہ موسمیاتی تبدیلی میں مغرب کی ایران دشمن ٹیکنالوجی کے ذریعے برساتی بادل چوری کر لیے جاتے ہیں۔
اگر کسی دن تہران خالی کرنے کا حکم جاری ہو بھی جائے تب بھی معاشی گراوٹ کے مارے لوگ کہاں جائیں۔ صرف تہران ہی تو پیاسا نہیں۔ یہ مسئلہ تو ملک گیر ہے۔کرنسی کے اتار چڑھاؤ نے بھی لوگوں کی معیشت پتلی کر رکھی ہے ( اس وقت ایک امریکی ڈالر بارہ لاکھ ریال کے مساوی ہے)۔ افراطِ زر ، روزگار اور مسلسل مہنگائی کی ماری شہری اکثریت ان حالات میں نقلِ مکانی کیسے افورڈ کرے گی۔سرکار نے کلاؤڈ سیڈنگ کے ذریعے بارش برسانے کی بھی متعدد بار کوشش کی مگر مسئلہ اتنا وسیع ہے کہ کلاؤڈ سیڈنگ کی افادیت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
طویل المیعاد حل ایک ہی ہے کہ زیادہ پانی استعمال کرنے والی فصلوں کو متبادل فصلوں سے بدلا جائے تاکہ کم ازکم پینے کا پانی تو ضرورت کے مطابق دستیاب ہو سکے۔ویسے بھی بارانی ملک میں خوراکی خودکفالت کا ہدف پورا کرنا اتنا مہنگا پڑ جاتا ہے کہ اس کے مقابلے میں وہی اجناس درآمد کرنا زیادہ سستا ہے۔مگر سرکاریں اکثر حکمتِ عملی میں تبدیلی کے فیصلے بہت دیر سے کرتی ہیں اور وہ بھی تب جب پانی سر سے اونچا ہو جائے۔آبی دیوالیہ پن محض ماحولیاتی بحران نہیں بلکہ اس کے اندر سماجی اور سیاسی بحران بھی پوشیدہ ہیں۔
معاملہ محض ایران تک محدود نہیں۔کابل جس کی آبادی گزشتہ پچیس برس میں سات گنا بڑھ چکی ہے شدید آبی قلت کی لپیٹ میں ہے۔جو زیر زمین پانی میسر ہے وہ بھی ناقص ہونے کے باوجود اتنا مہنگا ہے کہ اکثر کنبے اپنی آمدنی کا تیس فیصد صاف پانی پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔خطرہ ہے کہ اگلے پانچ برس میں کابل بھی آج کے تہران کی صف میں کھڑا ہو گا۔اور اس صف میں تیسرا شہر کوئٹہ ہو گا جہاں آبادی میں اضافے اور کم بارشوں کے سبب زیرِ زمین پانی بہت نیچے چلا گیا ہے۔ کوئٹہ قلتِ آب کے بحران میں پاکستان کے دیگر شہروں کو کچھ برس پہلے ہی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)