گزشتہ دنوں کمسن ابراہیم کا گٹر میں گرکر موت کے منہ میں چلے جانا کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا اور یہی اس شہری سانحے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
کراچی میں کھلے مین ہولز، ٹوٹے ڈھکن، غیر تسلی بخش نکاسی آب اور برسوں سے نظرانداز شدہ شہری منصوبہ سازی نے بچوں کی زندگیوں کو روزانہ کی بنیاد پر خطرے میں ڈال رکھا ہے۔
ابراہیم کی موت ایک سوال ہے ،آخرکراچی جیسا شہر، جس کی معیشت پورے ملک کو سہارا دیتی ہے، اپنے بچوں کے لیے بھی محفوظ کیوں نہیں؟آج کھلے مین ہولزایک خاموش قاتل کا روپ دھار چکے ہیں۔کراچی میں سیکڑوں مین ہولز بغیر ڈھکن کے موجود ہیں۔
کچھ برساتی پانی میں چھپ جاتے ہیں،کچھ چوری ہو جاتے ہیں اورکچھ محکمہ جاتی غفلت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ صورتحال کوئی عارضی بے ترتیبی کی نہیں بلکہ شہرکے پورے نکاسی آب کے نظام میں موجود دیرینہ بدانتظامی کی علامت ہے۔
کے یم سی، واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن، ڈی ایم سیزاور دیگر اداروں کے درمیان اختیارات کی کھینچا تانی صورتحال کو بگاڑنے میں بنیادی کردارکی حامل ہے۔غیر مربوط شہری منصوبہ بندی، سڑکوں اور سیوریج لائنوں کی مرمت میں بے حد تاخیر، بارشوں کے بعد ہنگامی اقدامات کا فقدان۔
یہ تمام عوامل مل کر ایسے سانحات کو مسلسل جنم دیتے ہیں جن کا شکار وہ بچے بنتے ہیں جن کے کندھوں پر قوم کا مستقبل رکھا جاتا ہے۔ ابراہیم جیسے حادثات صرف بدانتظامی نہیں بلکہ موسمیاتی بحران کے بڑھتے اثرات سے بھی جڑے ہیں۔
ماہرین پہلے ہی متنبہ کرچکے ہیں کہ کراچی جنوبی ایشیا کے ان شہروں میں شامل ہے جو شدید موسمیاتی خطرات کے مرکز میں داخل ہو چکے ہیں، یعنی اگر شہری انفرا اسٹرکچر پہلے ہی بوسیدہ ہو تو ماحول اور موسم میں ہر معمولی تبدیلی بھی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ کراچی کا بنیادی انفرا اسٹرکچر کم ازکم دو دہائیوں سے زوال کا شکار ہے۔ سیوریج لائنیں پرانی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں، واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے پاس فنڈز اور عملے کی کمی ہے، غیر رسمی بستیوں میں بغیر نقشے کے تعمیرات کھلے عام ہو رہی ہیں اورکوئی ادارہ انھیں روکنے والا نہیں۔
نالوں پر تجاوزات اور ان پر بنے غیر سائنسی ڈھانچے شہری انفرا اسٹرکچر کا منہ چڑا رہے ہیں،کچرے اور پلاسٹک کے بوجھ سے بند ہوتی ڈرینج اور سولڈ ویسٹ کے مسائل، ان سب عوامل نے مل کر پاکستان کے معاشی حب کو ناقابل رہائش شہر میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایسے شہر میں مین ہول کا کھلا ہونا محض ایک غفلت نہیں بلکہ انتظامی ذمے داریوں کے پورے نظام کا انہدام ہے۔کیا یہ ماحولیاتی مسئلہ ہے یا انتظامی؟ اصل میں دونوں۔ یہ امر اب حقیقت بن چکا ہے کہ کراچی کے شہری مسائل اب ایک اجتماعی بحران کی شکل اختیارکر چکے ہیں، جہاں، موسمیاتی تبدیلی، سمندرکی سطح میں اضافہ، اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ، سیلابی بارشیں اور شہری اداروں کی بدانتظامی کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی چپقلش یہ سب ایک ہی لڑی میں جڑ چکے ہیں۔
ابراہیم کی کہانی اسی بڑے ماحولیاتی و شہری بحران کی ایک المناک مثال ہے۔اس کا ذمے دارکون ہے؟ یہ سوال ابھی بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ ہر سانحے کے بعد یہی سوال اٹھتا ہے، مین ہول کس نے کھلا چھوڑا؟ ذمے دارکون ہے؟
اداروں نے ٹائم پرکارروائی کیوں نہ کی؟احتیاطی اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ لیکن ان سوالات کے جواب کبھی نہیں ملتے اورکچھ دن بعد زندگی معمول پر آجاتی ہے، تاوقتیکہ کوئی نیا ابراہیم ایک اورکھلے مین ہول میں گر کر جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے۔
اگر کراچی کو محفوظ شہر بنانا ہے تو چند بنیادی اقدامات فوری طور پر ناگزیر ہو چکے ہیں جن میںسیوریج سسٹم کی مکمل آڈٹ اور ری ڈیزاننگ،پرانی اور ٹوٹی لائنوں کی ہنگامی تبدیلی، مین ہول مانیٹرنگ سسٹم، GPSٹیگ شدہ، لاکڈ کور اور موبائل ایپ رپورٹنگ سسٹم۔
شہری اداروں کے درمیان اختیارات کی وضاحت،کے ایم سی، ڈی ایم سیز ، واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے درمیان مربوط حکمت عملی۔ بارشوں کے دوران ایمرجنسی رسپانس یونٹ، ہر علاقے میں مین ہول کورکی مستقل نگرانی کے ساتھ شہرکی ماحولیاتی منصوبہ بندی،کلائمیٹ رسک بیسڈ اربن پلاننگ، تاکہ شہرکو آنے والے موسمیاتی واقعات سے محفوظ رکھا جا سکے۔
ابراہیم کی موت شہرکے لیے آخری وارننگ ہونی چاہیے۔ یہ سانحہ ایک بچے کی موت نہیں، یہ کراچی کے شہری نظام کے لیے ریڈ الرٹ ہے، اگر یہ شہر آج بھی نہیں جاگتا، اگر شہری ادارے اور شہر میں متحرک سیاسی جماعتیں اب بھی اپنی ترجیحات درست نہیں کرتے، اگر ماحولیاتی اور موسمیاتی حقیقتوں کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو یہ سلسلہ کبھی نہیں رکے گا۔