دوسری جانب ایک اور تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے حالیہ مالی اجرا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان معاشی استحکام اور ترقی کے لیے ضروری اقدامات پر عملدرآمد کر رہا ہے۔
وہ وقت دور نہیں جب پاکستان قرضوں سے مکمل نجات حاصل کر کے معاشی طور پر خود کفیل ہوگا، جب کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے کہا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی میں اضافے کا امکان ہے، مہنگائی کی شرح 4.5 فیصد سے 6.3 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
پاکستان اور انڈونیشیا کے تعلقات میں حالیہ پیش رفت جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی و اقتصادی منظر نامے میں ایک اہم موڑکی حیثیت رکھتی ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان سات معاہدوں اور مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اسلام آباد اور جکارتہ مستقبل میں باہمی تعاون کو محض روایتی سفارتی سطح تک محدود رکھنے کے بجائے اسے معاشی، سائنسی، ٹیکنالوجیکل اور سلامتی سے متعلق پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے خواہاں ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف اور انڈونیشیا کے صدر پرابووو سوبیانتو کی ملاقات میں جو گرمجوشی، واضح ہدف بندی اور عملی تعاون کا عزم سامنے آیا، اس نے دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی جہت دے دی ہے۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب دنیا بھر میں معاشی دباؤ، جغرافیائی کشیدگی، توانائی کے بحران اور علاقائی اتحاد و تعاون کی نئی شکلیں ابھر رہی ہیں۔ چنانچہ اس ملاقات کے دور رس اثرات پر غور ضروری ہے۔
پاکستان اور انڈونیشیا دونوں دنیا کی بڑی مسلم آبادی رکھنے والے ممالک ہیں۔ دونوں کا ماضی تحریکِ آزادی، نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف جدوجہد اور عالمی سطح پر ترقی پذیر ممالک کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے حوالے سے مشترکہ روایت رکھتا ہے۔
مگر گزشتہ دو دہائیوں میں جہاں انڈونیشیا نے معاشی استحکام، صنعتی ترقی، سیاحت، ڈجیٹلائزیشن اور جمہوری انتظام میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، وہیں پاکستان اندرونی سیاسی عدم استحکام، معاشی کمزوری، سرکلر ڈیٹ، مہنگائی اور خارجی انحصار کے بوجھ میں الجھا رہا۔
تاہم اب پاکستان میں معاشی نظم و ضبط، سفارتی سرگرمیوں کی ازسرنو تنظیم کاری، ایس آئی ایف سی کے ذریعے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کی کوششوں اور علاقائی روابط کے فروغ نے حالات کو نئے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔
ایسے وقت میں انڈونیشیا کی قیادت کا دورہ پاکستان نہ صرف ایک سفارتی واقعہ ہے بلکہ ایک پیغام بھی ہے کہ خطہ پاکستان کی معیشت اور اس کے امکانات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتا۔معاہدوں میں شامل شعبوں کا تنوع بھی اس دورے کی اہمیت کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔
اعلیٰ تعلیم میں تعاون کے ذریعے دونوں ممالک کے تعلیمی اداروں میں تحقیق، مشترکہ پروگرامز، فیکلٹی ایکسچینج اور اسکالرشپ کے مواقع بڑھیں گے۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا بحران صرف وسائل کا نہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی، تحقیقاتی صلاحیت اور صنعتی ضروریات سے ہم آہنگ ماحول کی کمی کا بھی ہے۔
اگر انڈونیشیا کے ساتھ تعلیمی اشتراک کو مؤثر انداز میں آگے بڑھایا جائے تو پاکستان کی یونیورسٹیاں ایک نئے تعلیمی دور میں داخل ہوسکتی ہیں۔ اس کے ساتھ صحت کے شعبے میں تعاون کے امکانات بھی کم نہیں۔
انڈونیشیا نے کووڈ کے بعد اپنے طبی نظام، بائیو ٹیکنالوجی اور صحت عامہ کے پروگراموں میں جو پیش رفت کی ہے وہ پاکستان کے کام آ سکتی ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان طبی ماہرین کے تبادلے، اسپتالوں کی استعداد میں اضافہ، مشترکہ تحقیقی منصوبے اور وبائی امراض کی نگرانی کے نظام پر باہمی اشتراک صحت کے شعبے میں نئی راہیں کھول سکتا ہے۔
حلال انڈسٹری میں تعاون ایک ایسا پہلو ہے جس کی عالمی سطح پر انتہائی اہمیت ہے۔ دنیا بھر میں حلال فوڈ، حلال فارما، حلال کاسمیٹکس اور حلال سرٹیفکیشن کی مارکیٹ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
انڈونیشیا اس شعبے میں مضبوط مؤقف رکھتا ہے جب کہ پاکستان کی صلاحیت اور خام مال کی فراوانی اس شعبے کو دونوں کے لیے فائدہ مند بناتی ہے۔ اگر پاکستان عالمی حلال سپلائی چین کا فعال حصہ بن جائے تو نہ صرف برآمدات بڑھیں گی بلکہ دیہی معیشت اور زراعت کو بھی سہارا ملے گا۔
یہ تمام فیصلے خوش آیند ہیں مگر ایک اہم پہلو دو طرفہ تجارت میں بڑھوتری ہے ،اس پس منظر میں جب ہم پاکستان کی مجموعی معاشی حالت کا جائزہ لیتے ہیں تو آئی ایم ایف کی تازہ رپورٹ نہایت اہمیت اختیارکرجاتی ہے۔
آئی ایم ایف نے جہاں معاشی نمو کے 3.2 فیصد تک پہنچنے، ٹیکس آمدن میں اضافے، بے روزگاری میں کمی اور مجموعی مالی نظم میں بہتری کی نشاندہی کی ہے، وہیں مہنگائی کے دوبارہ بڑھنے کے خدشات بھی ظاہرکیے ہیں۔
مہنگائی بڑھ کر 6.3 فیصد تک پہنچنے اور 2026 میں تقریباً 9 فیصد تک جانے کا امکان ظاہرکیا گیا ہے۔ عوامی سطح پر پہلے ہی مہنگائی نے زندگی کو متاثر کیا ہے، اگر بنیادی اشیائے خورونوش، توانائی اور ٹرانسپورٹ کے نرخوں میں مزید اضافہ ہوا تو سماجی پریشانی اور عدم اطمینان میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
اس لیے حکومت کے لیے ضروری ہے کہ جہاں ٹیکس اصلاحات اور مالی نظم میں بہتری لائی جائے وہاں مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سبسڈی پروگراموں، ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی اور زرعی سپلائی چین کو بہتر بنانے کی فوری ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ میں ٹیکسوں کا معیشت میں حصہ 16.3 فیصد تک بڑھنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ پاکستان کا ٹیکس نیٹ دنیا میں سب سے کم سمجھا جاتا ہے۔
اگر وسیع بنیادوں پر ٹیکس اصلاحات، ڈیجیٹائزیشن اور ایف بی آر کی کارکردگی بہتر ہو جائے تو ملکی معیشت کو اندرونی بنیادوں پر مضبوط بنایا جا سکتا ہے، جس سے بیرونی قرضوں کا بوجھ کم ہوگا اور ترقیاتی اخراجات کے لیے گنجائش بڑھے گی۔
آئی ایم ایف کی جانب سے تازہ مالی اجرا اس حقیقت کا مظہر ہے کہ پاکستان درست سمت میں گامزن ہے اور حکومت کی جانب سے کیے جانے والے معاشی اقدامات عالمی اداروں کے نزدیک بھی قابلِ اطمینان ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان قرضوں سے مکمل نجات حاصل کرلے گا اور معاشی خود کفالت کی منزل سر کر لے گا۔ یہ ایک قابلِ قدر خواہش ہے، جسے ہر پاکستانی دل سے چاہتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشی ڈھانچے میں وہ اصلاحات ہوچکی ہیں جو قرضوں کے چنگل سے نکلنے کے لیے ضروری تھیں؟ کیا ہماری معاشی پالیسیاں اب اس نہج پر آگئی ہیں کہ بیرونی قرضوں کے بغیر ملک چل سکے؟
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دہائیوں سے قرضوں کے سہارے کھڑا ہے اور ان قرضوں کا حجم اس قدر بڑھ چکا ہے کہ انھیں کم کرنا ایک طویل اور مشکل عمل ہوگا۔ تاہم کسی بھی اصلاحاتی ماڈل کو کامیاب قرار دینے سے پہلے اس کے اثرات کو عوام کی زندگی میں محسوس کیا جانا زیادہ ضروری ہے۔
مہنگائی، بے روزگاری، صنعتوں کی زبوں حالی، زراعت کے مسائل اور معاشی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے جیسے عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اگر اصلاحات واقعی کامیاب ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ عام آدمی کی زندگی میں آسانی کیوں پیدا نہیں ہورہی؟
اس کے گھر کا بجٹ کیوں بگڑا ہوا ہے؟ بنیادی ضروریات تک رسائی کیوں پہلے کی نسبت زیادہ مشکل ہوگئی ہے؟
زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، لیکن آج کسان مہنگے کھاد، پانی کی کمی اور منڈیوں کے غیر منصفانہ نظام میں پس رہا ہے، اگر حکومت معاشی استحکام چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے زراعت کو جدید، منافع بخش اور موسمیاتی تبدیلیوں سے محفوظ بنانے پر توجہ دینی ہوگی۔
دوسری جانب صنعتوں کی بحالی بھی ضروری ہے۔ انرجی ٹیرف میں اتار چڑھاؤ، ٹیکسوں کا بوجھ اور عدم استحکام نے صنعت کاروں کو مشکلات میں ڈالا ہوا ہے۔ جب تک صنعت مضبوط نہیں ہوگی، برآمدات میں اضافہ نہیں ہوسکتا، اور جب تک برآمدات نہیں بڑھتیں، قرضوں سے نجات محض خواب ہی رہے گی۔
آئی ٹی سیکٹر وہ شعبہ ہے جو پاکستان کو کم وقت میں معاشی بلندیوں تک لے جاسکتا ہے، لیکن افسوس کہ اس جانب اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی کہ ضروری تھی۔
نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد آئی ٹی کی مہارت رکھتی ہے، لیکن انھیں عالمی مارکیٹ تک رسائی دینے کے لیے حکومتی سطح پر مناسب اقدامات کی کمی رہی ہے، اگر حکومت اس شعبے پر توجہ دے، فری لانسنگ کو آسان بنائے اور ٹیکنالوجی پارکس قائم کرے تو پاکستان اربوں ڈالر سالانہ کما سکتا ہے۔
عوام حکومت کی ہر مثبت کوشش کی قدر کرتے ہیں، لیکن وہ زبانی دعوؤں سے زیادہ عملی نتائج کے منتظر ہیں۔ پاکستان اس وقت ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں سنجیدہ، بصیرت افروز اور طویل المدتی فیصلے ناگزیر ہو چکے ہیں۔
اگر موجودہ حکومت واقعی اصلاحات کو پائیدار بنا سکے، سیاسی اتفاقِ رائے پیدا کر سکے، اور معاشی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھ سکے تو وہ دن ضرور آئے گا جب پاکستان معاشی طور پر خود کفیل ہوگا اور قرضوں کے سہارے سے آزاد ہو جائے گا۔