پاکستان کا زرعی شعبہ، جو قومی استحکام، معاشی کارکردگی اور دیہی معیشت کی بنیاد ہے، تیزی سے بڑھتے موسمیاتی تبدیلی کے باعث نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔
پہلے ہی ساختی مسائل سے بوجھ تلے دبا ہوا غذائی نظام اب غیر متوقع موسمی حالات سے دوچار ہے جو یہ طے کر رہے ہیں کہ ملک میں کیا اگایا جا سکتا ہے، کہاں اگایا جا سکتا ہے اور کس قیمت پر۔
سال 2022 اور پھر 2025 کے سیلاب نے پاکستان کی بڑھتی ہوئی موسمیاتی کمزوری اور غذائی تحفظ پر اس کے سنگین اثرات کو نمایاں کر دیا ہے۔
سال 2025 کے سیلاب نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ موسمیاتی آفات اب کبھی کبھار رونما ہونے والے حادثات نہیں رہے۔ ابتدائی تحقیق کے مطابق جنوبی اور وسطی زرعی علاقے شدید متاثر ہوئے، جن میں گندم، چاول، چارہ اور کپاس کی فصلیں نمایاں طور پر تباہ ہوئیں۔ مسلسل آفات نے نہ صرف مقامی کاشتکاری کے وسائل کو بے بس کر دیا بلکہ اس شعبے کی کمزور بنیادوں کو بھی بے نقاب کر دیا، جو 23.5 فیصد جی ڈی پی اور 37 فیصد سے زائد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتا ہے۔
ان موسمیاتی تباہ کاریوں کے تسلسل نے فصلوں کی جغرافیائی حدود تک بدلنا شروع کر دی ہیں۔ وہ علاقے جو کبھی مخصوص فصلوں کے لیے موزوں تھے اب غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں، جس کی وجہ بے ترتیب بارشیں، طویل گرمی کی لہریں اور تیزی سے خراب ہوتی ہوئی مٹی کی کوالٹی ہے۔
فلوڈ ڈیمیج اسسمنٹ(Flood Damage Assesment) رپورٹ 2025 کے مطابق زرعی شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا، جسے 430 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچا۔
ملک میں 34 لاکھ کپاس کی گانٹھیں، 10 لاکھ ٹن چاول، 33 لاکھ ٹن گنا اور پنجاب میںخریف کی 13 لاکھ ایکڑ اراضی سیلاب کی نذر ہوئی۔ بہاولنگر میں کپاس کی 80 فیصد فصل تباہ ہوئی جبکہ خیبر پختونخوا کے متعدد علاقوں میں ہزاروں ایکڑ زیرِ کاشت زمین بہہ گئی۔
ملک کی 82 لاکھ کاشتکار خاندانوں کے لیے جن میں 90 فیصد چھوٹے کسان ہیںایسی تباہی کسی سانحے سے کم نہیں۔ ایک ہی فصل کا تباہ ہو جانا نہ صرف گھریلو آمدن ختم کر دیتا ہے بلکہ یہ ان کی اگلی فصل کے لیے سرمایہ کاری، زرعی ادویات اور بیج خریدنے کی صلاحیت کو بھی شدید متاثر کرتا ہے، جس سے نہ صرف ان کا روزگار بلکہ ملک کے غذائی ذخائر بھی خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔
پاکستان کے زرعی نقشے میں تیز رفتار تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ بڑھتے درجہ حرارت کے باعث گندم اور مکئی کی کاشت شمال کی طرف منتقل ہو رہی ہے، جنوبی پنجاب اور بالائی سندھ میں کپاس کی بیلٹ سکڑ رہی ہے اور وہ علاقے جہاں چاول کی بھرپور پیداوار ہوتی تھی اب غیر یقینی مون سون کے باعث شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف پرانے ذخیرہ اور سپلائی چین سسٹم فصل بچ جانے کے باوجود بھی بعد از برداشت نقصانات میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ تمام مسائل مل کر غذائی عدم تحفظ کو بڑھا رہے ہیں، قیمتوں میں اتار چڑھاؤ پیدا کر رہے ہیں اور شہروں و دیہات میں سستی غذائی اجناس کی دستیابی کم کر رہے ہیں۔
اسی تناظر میں نجی شعبے کے چند اداروں نے بہت پہلے خطرے کی گھنٹی کو محسوس کیا اور عملی اقدامات شروع کیے۔ ان میں فاطمہ فرٹیلائزر نمایاں ہے جس نے روایتی زرعی طریقوں اور بدلتے موسمی حالات کے درمیان بڑھتی خلیج کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس پر بروقت کردار ادا کیا۔
کسانوں کی خدمات کے اعتراف اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے 18 دسمبر 2019کو کمپنی نے ”کسان ڈے” کی بنیاد رکھی ۔ یہ ایک علامتی قدم آج ایک مضبوط قومی تحریک بن چکا ہے اور وفاقی حکومت کی جانب سے سرکاری طور پر قومی کسان ڈے قرار دیا جا چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ‘‘سلام کسان’’پروگرام کسانوں کی آواز کو مزید مضبوط بنا رہا ہے، ان کے چیلنجز کو دنیا کے سامنے لا رہا ہے اور غذائی تحفظ میں ان کے کلیدی کردار کو تسلیم کروانے میں مدد دے رہا ہے۔
فاطمہ فرٹیلائزر نہ صرف اس عزم کی وکالت کر رہی ہے بلکہ زرعی جدیدیت اور کسانوں کی بااختیاری میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
سرسبز پاکستان ایپ کے ذریعے موسم کی فوری اطلاعات، 4R نیوٹریئٹ گائیڈنس اور فصل کے ہر مرحلے کی تکنیکی معلومات فراہم کی جاتی ہیں، تاکہ کسان بہتر فیصلے کر سکیں۔ اسمارٹ فارمنگ، غذائی نقشہ سازی، جدید آبپاشی اور ہائبرڈ بیج جیسے جدید طریقے زرائع کے بہتر استعمال اور موسمی نقصانات میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔ جاز کیش، موبی لنک بینک، زی ٹی بی ایل اور فسل پے جیسے مالیاتی شراکت کاروں کے ذریعے کسانوں کو فوری سرمایہ فراہم کر رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے SDG امپیکٹ فریم ورک کی پاکستان میں پہلی بار نجی سطح پر اپنانے سے کمپنی نے پائیدار ترقی کے اصولوں کو عملی جامہ پہنانے کے عزم کو ثابت کیا ہے۔
پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ غذائی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے موسمیاتی مزاحمت کو فوری ترجیح بنایا جائے۔ جدید آبی ڈھانچے، مضبوط حفاظتی بند، اپ گریڈ شدہ آبپاشی نظام، اور گرمی و سیلاب برداشت کرنے والے بیجوں پر تحقیق ناگزیر ہو چکی ہے۔
چھوٹے کسانوں کے لیے بغیر گارنٹی قرض، ڈیجیٹل قرض کی سہولیات، جدید ایگری ٹیک، ریموٹ سینسنگ، غذائی نقشہ سازی، اور حقیقی وقت میں موسمی نگرانی جیسے نظام کو تیزی سے اپنانا ہوگا۔ بہتر کولڈ چین، جدید گودام اور موثر نقل و حمل کی سہولیات فصل بچ جانے کے باوجود ضائع ہونے سے بچا سکتی ہیں۔
ان تمام اصلاحات کے لیے مربوط پالیسی سازی، عوامی و نجی شراکت داری، اور طویل مدتی سرمایہ کاری لازمی ہے۔
جدید زراعت کوئی مستقبل کا خواب نہیں—یہ آج عملی طور پر اپنا اثر دکھا رہی ہے اور فاطمہ فرٹیلائزر اس کی نمایاں مثال ہے۔
کمپنی Pivot Irrigation سسٹمز، جدید ٹریکٹرز، سیٹلائٹ امیجنگ، موسم، مٹی کی نمی اور غذائیت کی نگرانی جیسی ٹیکنالوجی استعمال کر رہی ہے۔ لیب سپورٹڈ ایڈوائزری ٹیمیں ہر سال 52 سے زائد میگا سیمینارز کے ذریعے ہزاروں کسانوں کو تربیت دیتی ہیں۔
کمپنی کی 10فیصد پیداوار میں بہتری کے دعوے کو اس سال کے شاندار مقابلہ گندم نتائج نے ثابت کر دیا ہے93 اضلاع میں پہلی پوزیشنیں اور 3 صوبائی اعزازات حاصل کیے گئے۔
موسمیاتی تبدیلی پہلے ہی پاکستان کے زرعی نقشے کو بدل چکی ہے۔ اب یہ فیصلہ پاکستان کو خود کرنا ہے کہ کیا وہ اس تبدیلی کو مستقبل کا مقدر بننے دے گا یا وسیع پیمانے پر اصلاحات کے ذریعے اپنے غذائی مستقبل کو محفوظ کرے گا۔ راستہ ابھی ختم نہیں ہوا، مگر عمل کرنے کی مہلت ضرور کم ہو رہی ہے۔
آج کیے گئے فیصلے طے کریں گے کہ آنے والے دہائیوں میں پاکستان غذائی طور پر محفوظ رہے گا یا نہیں۔