عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) نے تصدیق کی ہے کہ یہ حملہ امریکی اور شامی مشترکہ فوجی گشت کے دوران کیا گیا۔
ترجمان پینٹاگون نے بتایا کہ یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب امریکی فوجی، شام کے ایک تاریخی وسطی علاقے میں کلیدی رہنماؤں سے ملاقات کے لیے موجود تھے۔
اس ملاقات میں جاری داعش مخالف اور انسدادِ دہشت گردی کارروائیوں کے انجام دہی کے لیے باہمی مشاوت جاری تھی۔
پینٹاگون نے تصدیق کی ہلاک ہونے والوں میں دو امریکی فوجی اور ایک امریکی سویلین مترجم شامل ہے جب کہ تینوں زخمی بھی امریکی فوجی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے فوجیوں کے نام اور یونٹ سے متعلق تفصیلات اہلِ خانہ کی رضامندی ملنے کے بعد دی جائیں گی۔
دوسری جانب امریکی سینٹرل کمانڈ نے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ شام میں داعش کے ایک تنہا مسلح فرد کی گھات لگا کر کی گئی کارروائی کا نتیجہ تھا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ حملہ آور کو فورسز نے جوابی کارروائی میں ہلاک کر دیا۔
تاحال کسی گروہ نے باضابطہ طور پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور نہ ہی حملہ آور کی شناخت ظاہر کی گئی ہے۔
امریکی قیادت کا سخت ردِعمل
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ
“اس وحشی حملہ آور کو اتحادی فورسز نے ہلاک کر دیا ہے۔ اگر کوئی دنیا کے کسی بھی حصے میں امریکیوں کو نشانہ بنائے گا تو امریکا اسے ڈھونڈ کر بے رحمی سے ختم کرے گا۔”
ترکی میں امریکی سفیر اور شام کے لیے خصوصی ایلچی ٹام بارک نے اس واقعے کو “بزدلانہ دہشت گرد حملہ” قرار دیتے ہوئے ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں اور سویلین اہلکار پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے زخمی شامی اہلکاروں کی جلد صحت یابی کی دعا بھی کی۔
شام میں امریکی فوجی موجودگی
امریکا کے مشرقی شام میں سینکڑوں فوجی تعینات ہیں جو داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کے تحت کارروائیاں کر رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ شام نے بھی باضابطہ طور پر داعش کے خلاف اس عالمی اتحاد میں شمولیت اختیار کی تھی، جو سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد مغربی ممالک سے تعلقات میں بہتری کا نتیجہ ہے۔
بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے سے قبل امریکا اور شام کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع تھے، تاہم نئی عبوری حکومت کے قیام کے بعد تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ شام کے عبوری صدر احمد الشارع نے گزشتہ ماہ واشنگٹن کا تاریخی دورہ کیا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔
داعش کا خطرہ بدستور موجود
اگرچہ داعش کو 2019 میں شام میں شکست دی جا چکی ہے، تاہم اقوام متحدہ کے مطابق تنظیم کے 5 ہزار سے 7 ہزار جنگجو اب بھی شام اور عراق میں موجود ہیں اور خفیہ حملوں کے ذریعے سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
ماضی میں بھی شام میں تعینات امریکی فورسز پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ 2019 میں شمالی شام کے شہر منبج میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں دو امریکی فوجیوں اور دو امریکی شہریوں سمیت متعدد افراد ہلاک ہو گئے تھے، جب وہ گشت پر مامور تھے۔
تازہ واقعہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ داعش کے خلاف جنگ اگرچہ کمزور پڑ چکی ہے، مگر خطرہ اب بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔