پروفیسر خیال آفاقی

پروفیسر خیال آفاقی کا ذکر ہو تو یوں لگتا ہے جیسے ایک ایسے مسافرکی بات ہو رہی ہو، جو عمر بھر الفاظ اور علم کے راستے پر چلتا رہا اورکہیں بھی تھکاوٹ نے اس کے قدم نہیں روکے۔

ان کا اصل نام پیرزادہ شیخ عقیل احمد ہے، مگر دنیا انھیں خیال آفاقی کے نام سے جانتی ہے، جیسے کوئی فنکار اپنے اصل چہرے سے زیادہ اپنے تخلیقی روپ میں پہچانا جائے۔

اسلامیہ گورنمنٹ کالج کراچی میں وہ برسوں اردو ادب کے استاد رہے۔کلاس روم سے نکلتے تو کتابوں کی دنیا میں داخل ہوجاتے اور جب وہاں سے لوٹتے تو نئے خیال، نئی نظم یا کسی نعت کے چراغ ان کے ہاتھ میں ہوتے۔

ریٹائر ہونے کے بعد بھی انھوں نے آرام کو اپنے شیلف پرکسی اورکتاب کی طرح رکھ چھوڑا ہے اور خود تحقیق و تصنیف کے سفر میں آگے بڑھتے رہتے ہیں۔

ان کا قلم کبھی محمد بن قاسم کو زندہ کرتا ہے،کبھی مس انارکلی کی کہانی کو نیا رخ دیتا ہے،کبھی زندہ روحیں اور لا یموت کے ذریعے زندگی کی نئی پرتیں کھولتا ہے۔ پروفیسر خیال آفاقی کے کئی شعری مجموعے اس بات کے گواہ ہیں کہ احساس اور فن نے ان کے دل میں مضبوط گھر بنا رکھا ہے۔

دعوۃ اکیڈمی کا ایوارڈ اور نعت شریف پر صدارتی ایوارڈ اس مسافر کے راستے پر رکھے ہوئے وہ سنگِ میل ہیں جو بتاتے ہیں کہ خیال آفاقی نے لفظوں کو صرف لکھا ہی نہیں بلکہ انھیں زندہ بھی کیا ہے۔

پروفیسر خیال آفاقی کی شخصیت اردو ادب میں ایک ایسی ہمہ گیر جہت رکھتی ہے، جس میں اقبالیات کا تحقیقی وقار بھی ملتا ہے، نعتیہ شاعری کا روحانی وقار بھی اور فکشن و تنقید کی فکری تہذیب بھی۔

ان کا شمار کراچی کے اُن ممتاز اہلِ قلم میں ہوتا ہے جن کی تحریر صرف فن ہی نہیں بلکہ ایک فکری روایت کی توسیع بھی ہے۔

آگرہ میں 21 نومبر 1946 کو پیدا ہونے والے خیال آفاقی نے ہجرت کے بعد پاکستان میں جس فکری سفرکا آغازکیا، وہ نصف صدی سے زیادہ پر محیط ایک بھرپور ادبی ورثہ بن کر سامنے آیا۔

قیامِ پاکستان کے بعد برصغیر میں اقبالیات کا جو نیا دَورشروع ہوا، اس نے کئی اہلِ قلم کو فکری رہنمائی دی۔ خیال آفاقی اسی روایت کے وارث تھے۔

ان کی علمی تربیت میں اقبالیات نہ صرف ایک مضمون رہا بلکہ ایک فکری بنیاد بھی۔ یہی وجہ ہے کہ نشانِ اقبال، اذانِ اقبال، بچوں کے اقبال اور شاعرِ اسلام جیسی تصانیف محض شرح و تجزیہ ہی نہیں بلکہ اقبال کی فکرکو عوامی اور تعلیمی سطح پر پھیلانے کی منظم کوشش بھی ہیں۔

اقبالیات میں ان کی خدمات کا اعتراف اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت پر پی ایچ ڈی تک کا کام ہوا اور ان کی شاعری پر جامعاتی ریسرچ کا عمل بھی جاری ہے۔ یہ وہ اعتراف ہے جو ہر اہلِ قلم کو نصیب نہیں ہوتا۔

ان کا شعری اسلوب دیگر شعرا سے بالکل منفرد ہے۔ ان کی شخصیت میں کئی فکری جہتیں بھی ہیں۔ خیال آفاقی کی شاعری دو بڑے دھاروں میں رواں ہے۔

ایک طرف نعتیہ شاعری کی وہ روایت ہے جس کا آغاز ابتدائی اسلامی عہد سے ہوتا ہے اور سعدی، جامی، خسرو اور بوصیری جیسے نام اس کی بنیاد میں شامل ہیں۔ دوسری طرف جدید اردو غزل اور نظم کا وہ سلسلہ ہے جس نے بیسویں صدی کے بعد ایک نئی داخلی کائنات پیدا کی۔

خیال آفاقی کی نعت میں سادگی کے ساتھ وہ فکری وقار بھی ہے جو روایت کو مضبوط بھی کرتا ہے اور اسے نئے عہد کے احساسات سے جوڑ بھی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعر اُن کے اعتقادی رنگ اور روحانی جھکاؤ کی بہترین تصویر ہے۔

عشق کرتے ہو نبی سے تو سنو اے عاشقو

ہے ضروری آپ کی سیرت پہ چلنا چاہیے

یہ شعر محض جذباتی نعت ہی نہیں، بلکہ ایک اخلاقی منشور بھی ہے کہ عشقِ رسول مقبول ﷺ محض دعوے سے نہیں بلکہ کردار سے ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح جب وہ خود کو سعدیؒ، جامیؒ اور بوصیریؒ جیسے عظیم نعت نگاروں کے سامنے رکھ کر کہتے ہیں۔

وہ سعدی ہوں کہ جامی، وہ خسرو ہوں کہ بوصیری

وہ جیسی کہہ گئے ہیں نعت ہم سے ایسی کیا ہوگی

تو اس شعر میں عاجزی بھی ہے اور شعری روایت کا اعتراف بھی۔ پھر جب وہ آگے بڑھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ:

خدا تعریف خود کرتا ہے جب اپنے محمدؐ کی

تو پھر ہم کیا ہیں، ہم سے کیا محمدؐ کی ثنا ہوگی

یہاں شاعر خود کو فنا کے ایسے مقام پر لاکے کھڑا کرتا ہے جہاں نعت گوئی عبادت کے برابر ایک ذمے داری بن جاتی ہے۔

آپ کے کلام میں جابجا عشقِ رسول محمدی ﷺ کا اظہار بھی ملتا ہے۔ خیال آفاقی کی نعت میں عشق محض ایک لفظ ہی نہیں بلکہ وجودی بنیاد بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

اگر نہ عشقِ محمدؐ مجھے عطا ہوتا

تو سوچتا ہوں مری زندگی کا کیا ہوتا

یہ شعر شاعرکے داخلی سچ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شاعر کی نظر میں زندگی کی اصل روشنی عشقِ رسول محمدی ﷺ ہے اور اگر وہ نہ ہو تو فن بھی بے روح ہوجاتا ہے۔ عصرِ حاضر کے مسائل پر ان کی نظر بھی ہے۔ ان کے یہ اشعار عصرِ موجود کے انتشار، ظلم اور عالمی بے چینی کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔

مشکل میں گھری ہے ترے محبوب کی امت

ہے عالمِ اسلام میں اک شورِ قیامت

یہ منظرنامہ محض شکوہ و شکایت نہیں بلکہ ایک اجتماعی درد کی ترجمانی بھی ہے۔ ان کی نعت اور فکر دونوں میں امتِ مسلمہ کے حال پر اضطراب صاف محسوس ہوتا ہے۔

شب نامہ، رودِ خیال، نفسِ جبرائیل اور لذتِ آشنائی ان کی داخلی دنیا کی نمایندہ کتابیں ہیں۔ ان میں کلاسیکی روایت، صوفیانہ اشارات، جدید حسیت اور فکری استدلال سب ایک ساتھ شامل ہیں۔

پروفیسر خیال آفاقی تنقید، تحقیق اور سیرت نگاری میں بڑا کام کیا ہے۔ رسولِ اعظم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ جیسی کتاب ان کی تحقیق اور عشق کا ایک حسین امتزاج ہے۔

اس میں سیرت النبی ﷺ کے تعلیمی اور عملی پہلوؤں کو جس سادگی سے بیان کیا گیا ہے، وہ اسے عام قاری کے لیے بھی قابلِ مطالعہ بنا دیتا ہے۔

پروفیسر خیال آفاقی کا ادبی سفر محض شاعری، تحقیق یا اقبالیات تک محدود نہیں۔ وہ ان تمام میدانوں میں ایک ایسا مسلسل اورگہرا کام چھوڑ گئے ہیں جس کا اثر آنے والے وقت تک قائم رہے گا۔

ان کے ہاں فن، اخلاق اور عقیدت تینوں ایک ساتھ سانس لیتے ہیں۔ ان کی نعتیہ شاعری عشقِ رسول ﷺ کی تازہ اور دل نشیں مثال ہے۔

ان کی اقبالیاتی خدمات علمی سرمائے کا حصہ ہیں اور ان کی تحقیقی و تنقیدی تحریریں ادب کے فکری منظرنامے نمایاں مقام کے حامل ہیں۔

پروفیسر خیال آفاقی کا نام اردو ادب میں ایک معتبر حوالہ رہے گا اور ان کی نعت و فکر آنے والی نسلوں کے لیے روشنی کا سامان بنتی رہے گی۔ میری دعا ہے کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

Similar Posts