اسٹاک مارکیٹ عروج پر، فیکٹریاں زوال کا شکار

پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے لیے یہ سال غیر معمولی رہا ہے، جہاں بینچ مارک کے ایس ای-100 انڈیکس میں تقریباً 40 فیصد اضافہ ہوا، جو خطے کی بیشتر منڈیوں سے کہیں بہتر کارکردگی ہے لیکن چند سو کلومیٹر شمال کی جانب فیصل آباد یا گوجرانوالہ کے صنعتی مراکز کا رخ کریں تو وہاں ایک خوفناک خاموشی چھائی ہوئی ہے۔

یہ خاموشی بند پڑے کارخانوں، رکی ہوئی لومز اور ان صنعتی اسٹیٹس کی ہے جو اپنی سابقہ استعداد کے سائے بن چکے ہیں۔

2025 کے اختتام پر پاکستان ایک شدید تضاد پر مبنی، تقریباً شیزوفرینک، معاشی حقیقت پیش کر رہا ہے۔

یہ دو متوازی معیشتوں کی کہانی ہے۔ ایک طرف وہ ‘‘میکرو اسٹیبلائزیشن’’ کا بیانیہ ہے جسے اسلام آباد پیش کر رہا ہے اور جس پر عالمی مالیاتی ادارے داد دے رہے ہیں دوسری طرف ‘‘حقیقی’’ معیشت ہے، یعنی پیداوار، برآمدات اور روزگار کی معیشت، جو ناقابلِ برداشت توانائی لاگت اور جارحانہ ٹیکس پالیسیوں کے باعث وجودی بحران کا شکار ہے۔

یہ واضح خلیج ایک ناگزیر سوال کو جنم دیتی ہے اگر اسٹاک مارکیٹ نئی بلندیوں کو چھو رہی ہو اور وہی فیکٹریاں جو قوم کی بنیاد ہیں بند ہوتی جا رہی ہوں، تو آخر پاکستان کی معاشی بحالی کس کے لیے ہے؟

اس تضاد کو سمجھنے کے لیے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان کس کھائی کے کنارے سے واپس آیا۔ 2023 اور 2024 کے اوائل میں ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا تھا۔

اس کے بعد آئی ایم ایف کے سخت پروگراموں کے ذریعے ہونے والا یوٹرن جس کا نقط? عروج رواں سال کے اوائل میں حاصل ہونے والا 7 ارب ڈالر کا ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی پروگرام ہے ،کم از کم کاغذوں میں قابلِ ذکر ضرور ہے۔

حکومت نے مالیاتی نظم و ضبط پر سختی سے عمل کیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان، جسے اب خاصی خودمختاری حاصل ہے، نے طلب کو دبا کر مہنگائی پر قابو پایا اور اسے دوہرے ہندسوں سے گھٹا کر 5 فیصد سے بھی کم کر دیا۔

آئی ایم ایف کی قسطوں نے زرمبادلہ کی منڈیوں میں اعتماد بحال کیا اور روپے کو استحکام ملا۔پیداوار کے مواقع سے محروم سرمایہ کاروں نے، یہ سمجھتے ہوئے کہ فوری تباہی کا خطرہ ٹل چکا ہے، حصص بازار کا رخ کیا۔

پی ایس ایکس میں تیزی بنیادی طور پر لیکویڈیٹی پر مبنی ہے، جسے مقامی سرمایہ کاروں کی جانب سے جمود کا شکار رئیل اسٹیٹ اور کم منافع دینے والے بینک ڈپازٹس سے نکل کر اسٹاک مارکیٹ کی طرف منتقلی نے ہوا دی۔

مگر فیکٹری فلور سے نظر آنے والا منظر یہ بتاتا ہے کہ مریض کو بچانے کے لیے اس کے بازوؤں اور ٹانگوں کو خون کی فراہمی بند کر دی گئی ہے۔ حقیقی معیشت خاص طور پر برآمدات پر مبنی بڑے پیمانے کی صنعت، تیزی سے تباہ ہو رہی ہے۔

ٹیکسٹائل صنعت، جو پاکستان کی نصف سے زائد برآمدات اور لاکھوں ملازمتوں کا ذریعہ ہے، شدید بحران کا شکار ہے۔ 2025 کے اواخر میں صنعتی بجلی کے نرخ 12 سے 14 سینٹ فی کلوواٹ آور کے درمیان ہیں، جبکہ بنگلہ دیش، ویتنام اور بھارت جیسے علاقائی حریف ممالک میں یہی نرخ 6 سے 9 سینٹ کے درمیان ہیں۔

ٹیکسٹائل جیسی کم منافع اور زیادہ حجم والی صنعت کے لیے یہ فرق مسابقتی نقصان نہیں بلکہ موت کا پروانہ ہے۔یہ بحران صرف بڑے صنعتکاروں تک محدود نہیں۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار، جو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، بھی اسی دباؤ کا شکار ہیں۔

بڑے گروپس کے برعکس، ایس ایم ایز کے پاس مالی گنجائش نہیں ہوتی، اس لیے وہ خاموشی سے بند ہو جاتی ہیں۔ ان کی بندش سرخیاں نہیں بنتی، مگر یہ ملک کی کاروباری بنیاد کے کٹاؤ کی علامت ہے۔حکومت اگرچہ ترسیلاتِ زر میں اضافے کو خوش آئند قرار دیتی ہے، مگر یہ ہجرت انسانی سرمائے کا ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔

یہ صرف مزدور نہیں جا رہے، بلکہ انجینئرز، ڈاکٹرز، اکاؤنٹنٹس اور آئی ٹی ماہرین بھی ایک سکڑتی ہوئی معیشت سے فرار ہو رہے ہیں۔ جیسے جیسے 2025 اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے، پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔

اسٹاک مارکیٹ کی کامیابی مکمل طور پر بے معنی نہیں؛ مالیاتی استحکام ترقی کے لیے شرطِ اول ہے۔ مگر یہی ترقی نہیں۔ایسی بحالی جو اثاثہ رکھنے والوں کو تو فائدہ دے مگر فیکٹریوں کو بند کر دے، دیرپا نہیں ہو سکتی۔

ایسی معیشت جو برآمد شدہ اشیا کے بجائے برآمد شدہ افرادی قوت سے زرمبادلہ کمائے، کمزور بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے۔اگر یہی رجحان جاری رہا تو پاکستان ایک ایسی غیر صنعتی ریاست بن سکتا ہے جس کے میکرو اکنامک کھاتے تو درست ہوں، مگر پیداواری انجن موجود نہ ہو۔

سوال بدستور موجود ہے، کیا حکومت بین الاقوامی قرض دہندگان کو خوش کرنے والے اشاریوں کو ترجیح دے گی، یا ان مشکل مگر ضروری اصلاحات کو جو قوم کے معاشی دل کو دوبارہ دھڑکا سکتی ہیں؟ فیصلہ فوری طور پر کرنا ہوگا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

Similar Posts