افغانستان کے ساتھ مختلف چیلنجز

بنیادی طور پر دو ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری میں سیاسی حکمت عملی اور سفارتی محاذ پر ناکامی پہلے سے موجود تنازعات کے ماحول میں مزید بداعتمادی اور شدت پسندی پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔پاکستان کے لیے علاقائی تعلقات یا خطہ کی مجموعی صورتحال میں افغانستان ایک مشکل ملک بن چکا ہے اور ہمیں ان حالات میں افغانستان سے اپنی داخلی سلامتی کا چیلنج درپیش ہے ۔

اسی بنیاد پر پاکستان کا یہ نقطہ نظر اہمیت رکھتا ہے کہ ہمیں افغانستان سے مسلسل نہ صرف دہشت گردی کا سامنا ہے بلکہ آگے بھی ہم پرداخلی دہشت گردی کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کا ایک بیانیہ یہ بھی ہے کہ جب تک ہمارے سیکیورٹی کی سطح پر خدشات حل نہیں ہونگے افغانستان سے امن ممکن نہیں ہوسکے گا۔ایک مشکل یہ بھی ہے کہ محض افغانستان تنہا نہیں ہے بلکہ اس کی پشت پر عملاً بھارت بھی موجود ہے اور ان دونوں کا پاکستان دشمنی پر مبنی گٹھ جوڑ ہمارے داخلی مسائل کے حل میں رکاوٹ بن گیا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ ہم نے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے میں سفارت کاری کی سطح پر کوئی کوشش نہیں کی۔

پاکستان نے داخلی طور پر بھی افغانستان کی طالبان قیادت سے کئی مرتبہ دو طرفہ مذاکرات کیے اور پھر قطر،ترکی اور سعودی عرب کی براہ راست ثالثی سے بھی تعلقات کو بہتر بنانے کی جو کوشش کی وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی۔بنیادی نقطہ اسی کے گرد گھوم رہا ہے کہ افغانستان کی قیادت اس وقت کسی بھی طور پر اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہ ہونے کی تحریری ضمانت دینے کے لیے تیار نہیں اور جو کچھ وہ زبانی بنیادوں پر کہہ رہی ہے اس پر پاکستان اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ۔افغانستان محض پاکستان کو ہی نہیں بلکہ اس نے قطر،ترکی سمیت سعودی عرب کو بھی تحریری طور پر پاکستان کے تحفظات پر ضمانت دینے سے انکارکیا ہے ۔

ان حالات میں پاکستان میں یہ نقطہ نظر شدت اختیار کررہا ہے کہ افغانستان سے اب مذاکرات یا سفارت کاری کی کوششوں سے کچھ بھی نہیں حاصل ہوگا۔افغانستان کا علاج اب سخت گیر ردعمل یا جنگ کا ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ۔اسی بنیاد پر پاکستان کی سطح پر لہجوں میں تلخی ،سخت جملے اور الزام تراشی سننے کو مل رہی ہے ۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم سے کچھ لوگ افغانستان کے معاملات میں کافی آگے جا چکے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سفارت کاری یا سیاسی حکمت عملیوں کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں بچی اور ہمیں افغانستان کو جنگ ہی کی صورت میں سخت ردعمل دینا ہوگا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حالیہ بات چیت کے تناظر میں ہم کو کسی بھی سطح پر افغانستان کے طرز عمل میں مثبت پہلو نہیں ملا جو مزید آگے بات چیت کے امکانات کو پید ا کرتا یا ہمیں یہ محسوس ہوتا کہ افغانستان میں موجود حکومت ہمارے تحفظات پر سنجیدہ نظر آتی ہے ۔لیکن اس کے باوجودکسی بھی طور پر سفارت کاری کی حکمت عملی کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے ۔ویسے بھی جنگ اور سفارت کاری بعض اوقات اکٹھے بھی چلتے ہیں اور سفارت کاری کا دروازہ بند کرنا بھی کوئی بہتر اور اچھی حکمت عملی نہیں ہوسکتی ۔بعض اوقات سفارت کاری پردہ اسکرین پر ہوتی ہے جو سب کو دکھائی بھی دیتی ہے مگر اسی کے ساتھ ساتھ کچھ سفارت کاری کی کوششیں پس پردہ بھی ہورہی ہوتی ہیں جو بہت سے لوگوں کی نظروں سے تو اوجھل ہوتی ہیں مگر ریاست ان معاملات کو ایک مختلف زاویہ کی بنیاد پر چلارہی ہوتی ہے ۔

ایک ایسے موقع پر جب ہمارا یہ قومی بیانیہ ہے کہ ہمیں عالمی سفارت کاری کی سطح پر کافی پزیرائی مل رہی ہے اوردنیا ہمارے موقف اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے ۔ایسے میں علاقائی یا عالمی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات اور افغانستان سے ہمارے بگڑتے تعلقات یا جنگ کے ماحول میں ہماری سفارت کاری کا ایک بڑا انحصار عالمی طاقتوں کی جانب ہونا چاہیے۔ امریکا ہو یا برطانیہ یا چین سمیت قطر،ترکی اور سعودی عرب یا روس کی مدد سے ہمیں افغان حکومت پر یہ دباؤ سفارت کاری کے محاذ پر بڑھانا ہوگا کہ وہ ہر صورت افغانستان سے دہشت گردی کے خاتمے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے اقدامات کرے۔اسی سفارت کاری کا ایک نقطہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ بھارت اور افغانستان کا پاکستان دشمنی پر مبنی رویہ ختم ہونا چاہیے یا ان تعلقات کو پاکستان دشمنی سے نہ جوڑا جائے ۔

ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ افغانستان کے 34 صوبوں سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام نے ایک مشترکہ قرارداد پیش کی جس میں موجودہ نظام حکومت کی حمایت ،علاقائی سالمیت کے دفاع،افغانستان کی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے ،افغانوں کی بیرون ملک عسکری سرگرمیوں میں شمولیت کی مخالفت اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد پر زوردیا ہے۔افغان علمائے کرام کی اس کوشش کی بھرپور حمایت ہونی چاہیے اور ہمیں مذہبی جماعتوں ،قیادتوں اور علمائے کرام کو بھی اسی طرح سفارت کاری کے طور پر افغانستان یا افغان حکومت یا علمائے کرام کے ساتھ حکمت عملی کے کارڈ کے طور پر سامنے لانا چاہیے۔

لیکن مسئلہ صرف قراردادیں پیش کرنے سے نہیں بلکہ عملی اقدامات اٹھانے سے حل ہو گا۔ یہ مسئلہ جذباتیت اور جنگ سے حل نہیں ہوگا بلکہ سنجیدہ سیاسی اور سفارتی کوششوں کے ساتھ اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔خود افغانستان کے وزیر خارجہ ملا امیر خان تقی نے بھی اشارہ دیا ہے کہ افغانستان سے کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے والوں کے خلاف ایکشن ہوگا۔ لیکن اس یقین دہانی پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ اسی طرح مثبت پہلو پاکستان کے لیے یہ بھی ہے کہ موجودہ افغان حکومت سے صرف پاکستان کو ہی تحفظات نہیں ہیں بلکہ ارد گرد کے دیگر ممالک بھی دہشت گردی کی حوصلہ افزائی یا سہولت کاری پر افغان حکومت پر تنقید کررہے ہیں ۔

پاکستان کی سفارت کاری کا ایک چیلنج امریکا ،روس یا چین سمیت سعودی عرب کا کردار ہے اور دیکھنا ہوگا کہ یہ ممالک پاکستان کے تحفظات کے تناظر میں کس حدتک افغان حکومت پر دباؤ بڑھاتے ہیں یا افغانستان کو اس کے موجودہ کردار میں کس حد تک محدود کرتے ہیں جس سے پاکستان کے اپنے تحفظات کو بھی دور کرنے میں مدد مل سکے ۔ تہران کانفرنس میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ افغان سرزمین سے ابھرنے والی دہشت گردی کا مسلسل خطرہ پورے خطے کے لیے باعث تشویش ہے اور پڑوسی ممالک صرف ایسے افغانستان پر اعتبار کرسکتے ہیں جو دہشت گردوں کو پناہ نہ دیتا ہو، یہ ہماری سفارت کاری کے عمل میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

ایک نقطہ افغانستان میں رجیم چینج کا ہے اور اس پر مختلف حلقوں کی جانب سے رائے دی جا رہی ہے کہ وہاں سب کی نمایندہ حکومت ہونی چاہیے۔ افغانستان کے اقتدار پر قابض موجودہ گروپ اس رائے پر سخت ردعمل دے رہا اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو ناکام بنا رہا ہے۔ اس حکمت عملی سے سفارت کاری کا عمل کیسے آگے بڑھ سکتا ہے ۔یقیناً پاکستان کو افغانستان کے سخت گیر یا جنگی اقدامات پر سخت رویہ ہی اختیار کرنا پڑے گا مگر سفارت کاری کا دروازہ بھی بند نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح اب جدید تقاضوں کے مطابق بارڈر مینجمنٹ پر کام کرنا ہوگا اور اس میں جو بھی کمزوریاں ہماری سطح پر موجود ہیں اس میں شفافیت اور بہتری پیدا کرنا ہوگی۔

ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ماضی اور حال میں جو بھی ہمیں افغان پالیسی کی بنیاد پر یہ خوش فہمی تھی کہ کابل میں طالبان کی حکومت پاکستان کے مفاد میں ہوگی ،غلط ثابت ہوئی ۔ ویسے بھی کوئی بھی ملک اپنی سفارت کاری کی کوششوں میں مختلف ملکوں کے ساتھ اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کو جوڑ کر دیکھتا ہے اور اس وقت اس کا بھارت کی طرف جھکاؤ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے اسی طرح جب پاکستان یہ کہتا ہے کہ افغانستان کو سیکیورٹی اور تجارت میں سے ہمارے ساتھ کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا یا یہ دونوں چیزیں یعنی دہشت گردی اور تجارت اکٹھے نہیں چل سکتے،سنگینی کا احساس دلاتا ہے۔اسی بنیاد پر افغانستان نے تاجروں کو متبادل سطح کے راستے تلاش کرنے کی ہدایت دی ہے ۔

پاکستان کی ایک مشکل یہ بھی ہے ہمیں افغان حکومت کی جانب سے کوئی ایسے مثبت اور عملی اقدامات یا اشارے نہیں ملے کہ اس نے خود کو ٹی ٹی پی پاکستان مخالف قوت سے کوئی فاصلہ اختیار کیا ہو یا ان کے خلاف منفی سرگرمیوں پر کوئی عملی اقدامات کیے ہوں۔یہ وہ نقطہ ہے جس کی وجہ سے ہمیں عملاً افغانستان کے تناظر میں مثبت پہلو کم اور منفی پہلو زیادہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایسے میں ہمیں اپنی سفارت کاری کی حکمت عملی کو ایک نئے زاویے کی بنیاد پر پھر سے پرکھنا اور جانچنا ہوگا کہ اس محاذ پر افغانستان کو کیسے راہ راست پر لا سکتے ہیں ۔

Similar Posts