12 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس محمد علی مظہر نے تحریر کیا جس کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ کا وہ حکم کالعدم قرار دیا گیا جس میں ایک ملازم کی برطرفی کو بر قرار رکھا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ بر طرفی کے مقدمات میں ملازم کے خلاف مس کنڈکٹ ثابت کرنے کی بنیادی ذمے داری آجر پر عائد ہوتی ہے۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ ’اس معاملے میں شواہد اتنے واضح، قابل اعتماد اور مضبوط ہوں کہ فیصلے کو تقویت دیں اور شک و شبے کی گنجائش کم سے کم رہ جائے۔عام طور پر جب کوئی ملازم اپنی بر طرفی کو چیلنج کرتا ہے تو اکثر بوجھ آجر پر منتقل ہو جاتا ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ اس کا اقدام آزادانہ، غیر جانبدار اور منطقی وجوہات پر مبنی تھا اور ملازم کو بر طرف کرتے وقت قدرتی انصاف اور قانونی طریق کار کی اصولوں کی مکمل پابندی کی گئی۔
مزید یہ کہ آجر پر لازم ہے کہ وہ عدالت کو مطمئن کرنے کے لیے ٹھوس شواہد پیش کرے کہ فیصلہ کسی انتقام، جانبداری یا تعصب پر مبنی نہیں تھا۔
مقدمے کے حقائق کے مطابق دانت کے درد کی وجہ سے درخواست گزار نے یکم ستمبر 2015 کو ڈینٹل سرجن سے رجوع کیا، جہاں اسے روٹ کینال کا مشورہ دیا گیا۔ علاج کے بعد درخواست گزار نے کمپنی کی منظور شدہ پالیسی کے مطابق طبی اخراجات کی واپسی کے لیے درخواست دی تاہم یکم دسمبر 2015 کو ہیومن ریسورس منیجر کی جانب سے اسے شوکاز نوٹس جاری کیا گیا کہ اس نے 10 ہزار روپے کا جعلی میڈیکل بل جمع کرایا ہے۔
درخواست گزار نے الزامات کی تردید کی اور تصدیق شدہ بل جمع کرایا لیکن 8 مارچ 2016 کو اسے ملازمت سے بر طرف کر دیا گیا۔
درخواست گزار نے نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن میں شکایت دائر کی جو مستر د ہو گئی۔ اس کے بعد اس نے ادارے کے فل بینچ کے سامنے اپیل دائر کی جسے منظور کر کے سنگل بنچ کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے درخواست گزار کو تمام سابقہ فوائد کے ساتھ بحال کرنے کا حکم دیا گیا۔
بعد ازاں کمپنی نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جسے منظور کرتے ہوئے ملازم کی برطرفی کا حکم بحال رکھا گیا۔
عدالت عظمی نے آبزرو کیا کہ جب ریکار ڈ پر متضادر سیدیں موجود تھیں تو انکوائری افسر کے لیے لازم تھا کہ وہ اسپتال سے کسی گواہ کو ثبوت اور تصدیق کے لیے طلب کرتا اور درخواست گزار کو جرح کا حق دیا جاتا۔
لیبر قوانین کے تحت ڈومیسٹک انکوائری کو اگر اس قدر سرسری لیا جائے تو اس کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے۔
اگر چہ انکوائری افسر ایک تربیت یافتہ عدالتی افسر کے برابر نہیں ہوتا تاہم قدرتی انصاف اور قانونی طریقہ کار کی کم از کم ضروریات پورا کر نانا گزیر ہے۔ بد عنوانی کا الزام ثابت کرنا ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور کم از کم ملزم کے لیے اس کے نتائج آجر کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنگین ہوتے ہیں، لہذا کسی کو قصور وار قرار دینے سے پہلے مکمل احتیاط اور جانچ پڑتال ضروری ہے۔