اس کمیٹی کے 56ویں اجلاس میں تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اور وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس نے شرکت کی تھی۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے اس اہم معاملے پر پیش رفت کی اطلاع ایک ہینڈ آؤٹ کے ذریعہ مشتہر کی ہے۔ اس اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس اجلاس میں دیگر مقدمات کو جلدازجلد نمٹانے اور جیل اصلاحات کے لیے صوبائی حکومتوں سے مشاورت کا بھی فیصلہ ہوا۔
اس اجلاس میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگلے اجلاس میں عدالتی احکامات کے باوجود گرفتار شخص کو 24 گھنٹوں کے دوران پیش نہ کرنے کے معاملات پر(عدالتی احکامات پر عمل نہ ہونے کے بارے میں) ایک جامع رپورٹ پیش کریں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے جبری گمشدگی کے مقدمہ میں یہ واضح رولنگ دی تھی کہ جبری گمشدگی سے مراد یہ ہے کہ کسی شہری کو سرکاری اہلکار اپنی تحویل میں لے لے۔ اس رولنگ کے بعد سندھ ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے شخص کے لواحقین کو معاوضہ کی ادائیگی کے احکامات جاری کیے تھے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی قومی اسمبلی میں اس مسئلے پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ جبری گمشدگی Enforced Disappearances کے حامل شخص کے لواحقین کو ریاست معاوضہ ادا کرے گی۔ شہریوں کی جبری گمشدگی کا مسئلہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور یورپی پارلیمنٹ کا اہم ایجنڈا ہے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کا یہ موقف ہے کہ جبری گمشدگی کو فوجداری جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ ایچ آر سی پی کی سابق چیئرپرسن عاصمہ جہانگیر نے 2011 میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت میں متعدد لاپتہ شہریوں کی بازیابی کے لیے عرضداشتیں دائر کی تھیں۔ جسٹس افتخار چوہدری نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا تھا ۔
بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فاضل ججوں نے کمیشن کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بھی کمیشن کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی برطرفی کی رائے دی تھی جس پر اس سال انھیں اس عہدے سے برطرف کیا گیا اور لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس کھوکھر کو اس عہدے پر مقرر کیا گیا تھا مگر جب جسٹس کھوکھر کا تقرر ہوا تو وہ شدید بیمار تھے اور اسپتال کے ICU وارڈ میں داخل تھے۔ جسٹس کھوکھر کمیشن کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی دنیا چھوڑ گئے۔ جسٹس ریٹائرڈ سید ارشد حسین شاہ کو یہ اہم ذمے داری تفویض کی گئی۔
تحریک انصاف حکومت نے انسانی حقوق کی تنظیموں کے دباؤ پر جبری گمشدگی کو فوجداری جرم قرار دینے کے لیے ایک مسودہ سینیٹ میں پیش کیا تھا۔ سینیٹ کے اراکین نے اس مسودہ کو بعض ترامیم کے ساتھ منظور کیا مگر اس وقت کی انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے ایک دن اچانک اعلان کیا کہ یہ مسودہ سینیٹ سے لاپتہ ہوچکا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوگئی مگر یہ مسودہ برآمد نہ ہوا اور نہ ہی موجودہ حکومت نے ابھی تک جبری گمشدگی کو فوجداری جرم قرار دینے کے قانون کو ملک میں نافذ کرنے کے بارے میں کوئی لائحہ عمل ظاہر کیا ہے۔ رواں مہینے میں 10 دسمبر کو پوری دنیا میں انسانی حقوق کا دن منایا گیا۔ اس دن کا ایک اہم موضوع شہریوں کی جبری گمشدگی تھا۔
کراچی کے بین الاقوامی تعلقات کے انسٹی ٹیوٹ (P.I.I.A) میں انسانی حقوق کے عالمی دن کے تناظر میں ایک تقریب سے آسٹریا کے سفیر Woltgang Oliver اور آسٹریا کی ویانا یونیورسٹی میں پروفیسر Dr. Stefan Hammel نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کا تحفظ اور معاشی تعاون ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ آسٹریا یورپی یونین کا فعال رکن ہے۔ آسٹریا کے شرکاء کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کا پاکستان کو GSP+ کا درجہ بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ منسلک ہے۔ آسٹریا سمجھتا ہے کہ جبری گمشدگی کے مسئلہ کے حل کے ساتھ مزدوروں، خواتین اور اقلیتوں کا تحفظ بھی ضروری ہے۔
سفیر صاحب کا بیانیہ تھا کہ انسانی حقوق کے تحفظ سے معاشی استحکام ممکن ہے۔ یورپی یونین اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل اور اقوام متحدہ کے منظور کردہ مختلف کنونشنز جس میں سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس کاکنونشن شامل ہے کی پاکستان نے توثیق کی ہے، کے نفاذ سے انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔ ایچ آر سی پی کے چیئرمین اسد اقبال بٹ کا بیانیہ ہے کہ ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی میں جبری گمشدگی ایک اہم مسئلہ ہے۔
ایچ آر سی پی سندھ کے وائس چیئرپرسن خضر حبیب قاضی جو سندھ میں انسانی حقوق کی بالادستی کی جدوجہد کے قائدین میں شامل ہیں کہتے ہیں کہ جبری گمشدگی کا مسئلہ پہلے پختون خوا میں سامنے آیا تھا۔ سردار اکبر بگٹی کی موت کے بعد بلوچستان میں یہ مسئلہ شدت اختیار کرگیا۔ سندھ میں سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کی خبریں عام ہوئیں۔ اس کے ساتھ ہی پنجاب بھی اس وباء سے محروم نہ رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ خراب صورتحال بلوچستان میں ہے جہاں سیاسی کارکن، وکیل اور طالب علم 20,20 برسوں سے لاپتہ ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی جو خواتین پر مشتمل ہے اس کے رہنماؤں کا بیانیہ ہے کہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد کئی ہزار کے قریب ہے۔ کمیٹی کی ایک رہنما تو یہ الزام بھی لگاتی ہیں کہ کئی بلوچ خواتین بھی جبری گمشدگی کا شکار ہوئیں۔ لاپتہ افراد کے لواحقین ہائی کورٹس میں عرضداشتیں کرتے ہیں۔ عدالتیں متعلقہ محکموں کو نوٹس جاری کرتی ہیں۔
عدالتیں پولیس افسروں کو طلب کرتی ہیں مگر عدالتوں کی طلبی پر بعض افسران نہ تو پیش ہوتے ہیں نہ جواب داخل کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کو اس صورتحال کا نوٹس لینا پڑگیا ہے۔ قانونی ماہرین اور اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان اس رائے پر متفق ہیں کہ اگر کسی شہری نے جرم کیا ہے تو اس کو 24گھنٹوں میں مقامی عدالت میں پیش کیا جائے اور اس کے خلاف مقدمہ چلایا جائے۔ ملزم کو اپنے دفاع کا پورا حق ملنا چاہیے۔
کئی وکلاء کا کہنا ہے کہ اگر اس قانون پر عملدرآمد کیا جاتا تو بہت سے افراد کو عدالتوں سے سزائیں ہوجاتیں، یوں ان کے لواحقین کسی المیہ کا شکار نہیں ہوتے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ کئی افراد بیرون ملک روپوش ہوگئے ہیں اور کچھ پہاڑوں پر جنگی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اس صورت میں کسی بھی ملزم کو گرفتاری کے بعد عدالت میں پیش کرنے کا طریقہ اپنایا جاتا تو جو لوگ روپوش ہوئے ہیں یا غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں وہ بری طرح ایکسپوز ہوجاتے اور کسی گروہ کو کسی مجرم کو ہیرو بنانے اور سڑکیں بند کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ اب لاپتہ افراد کے لواحقین کی ساری اُمیدیں سپریم کورٹ سے وابستہ ہوگئی ہیں۔