اسی شہر کی دوسری فرضی کہانی یہ ہے کہ صاحب تیار ہو گئے سوٹ پہن لیا، بڑی سی میز پر آ کر بیٹھ گئے۔ خانساماں پھرتی دکھا رہے ہیں، میز کو طرح طرح کے کھانوں سے بھرا جا رہا ہے۔ تفصیلات اکثر آپ ڈراموں میں دیکھتے ہی ہوں گے۔ ایک عالمی رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں امیر ترین ایک فی صد افراد کے پاس کل دولت کا 24 فی صد موجود ہے جو ملک میں دولت کی انتہائی غیر متوازن ناانصافی پر مبنی نظام کو ظاہر کرتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کے امیر ترین 10 فی صد افراد ملک کی کل دولت کا 59 فی صد کنٹرول کرتے ہیں جب کہ 45 فی صد افراد غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہیں۔
اسی لیے گاؤں میں کسان اپنی زمین دیکھتا ہے اس کے لیے دن رات محنت کرتا ہے پھر بھرپور فصل بھی دیکھ لیتا ہے گھر جا کر قرض کی رقم بھی دیکھتا ہے کہ کس کس سے ادھار لے کر یہ فصل بوئی ہے اور کتنی رقم ادا کرنی ہے۔ پھر اسے یاد آتا ہے کہ کافی رقم تو شہر کے اس بیوپاری سیٹھ سے لی تھی جسے زبان بھی دی کہ فصل تیار ہونے پر اسی کو بیچے گا، اور ایسا 78 برسوں سے کسانوں کے ساتھ ہوتا چلا آ رہا ہے کیونکہ نظام ہی ایسا ہے۔ امیر ترین بیوپاری اپنے کارندوں کو بھیجے گا، اونے پونے سودا طے ہو جائے گا۔
ایئرکنڈیشنڈ دفتر میں بیٹھا شخص بڑے ہول سیلر کو فون کرے گا، مہنگے داموں اسے فروخت کرتے ہوئے تقاضا کرے گا کہ مجھے پرسوں تک پیسے ٹرانسفر کر دینا کیوں کہ تمہیں پتا ہے کہ مجھے اپنے کسان بھائی کا بہت خیال ہے، میں اسے جلد ازجلد اس کی دن رات کی محنت کی کمائی اسے پہنچانا چاہتا ہوں اور پھر کسان یہی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ اتنی محنت کرنے کے باوجود فصل کی صحیح قیمت ہمیں ملتی نہیں اور ہم پھر خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔
جبھی تو رپورٹ میں صحیح نشاندہی کی گئی کہ ملک کے غریب ترین نصف افراد صرف 19 فی صد آمدنی میں حصہ دار ہیں، یعنی ایک فی صد وہ 24 فی صد دولت اڑا کر لے جائیں۔ 10 فی صد 59 فی صد دولت پر ہاتھ صاف کر دیں اور باقی خالی ہاتھ رہ جائیں۔نچلے طبقے کے 50 فی صد لوگ کل آمدنی کا صرف 19 فی صد جب پاتے ہیں تو وہ فی صد نہیں یہ وہ سچ ہے جب کوئی ماں اپنے چار بچوں کے لیے روٹی کو چار حصوں میں تقسیم کرکے ان کو بانٹ دیتی ہے اور یہ کہتی ہے بچوں سے کہ’’ تم لوگ کھا لو ،میں بعد میں کھا لوں گی ‘‘اور پھر ان میں سے کئی بچے اپنے اسکول بیگ میں سے کتاب نکال دیتے ہیں اور اپنے والد کا ہاتھ پکڑ کر کہتے ہیں ’’بابا میں نے کام سیکھنا ہے۔‘‘ مجھے کسی استاد کے پاس بٹھا دو۔ اور حکومت کہتی ہے اور بھوکی عوام سے شکایت کرتی ہے کہ دو کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں۔
والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں اور پھر اسی ملک میں 10 فی صد افراد ملک کی 42 فی صد آمدن اپنے پاس رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ کام کرکے محنت کرکے دولت نہیں کماتے بلکہ وہ دولت پیدا کرتے ہیں۔ صرف ایک فون کال پر۔ یہ پاکستان کا المیہ ہے کہ دیہات میں کسان بیج بوتا ہے، محنت کرتا ہے علی الصبح کھیت پر جا کر کام کرتا ہے مگر جب فصل تیار ہوتی ہے تو اس کی محنت کا معاوضہ کوئی اور طے کرتا ہے۔ آخر امیر فرد اس کو کیا حق دے گا اس کی تو خواہش ہوگی کہ سارا منافع اپنی جیب میں ڈال لے اور وہ ایسا ہی کرتا ہے جب ہی تو رپورٹ بھی یہی بتا رہی ہے کہ 10 فی صد افراد ملک کی 42 فی صد آمدنی اپنے پاس رکھتے ہیں۔
یعنی زمین کسان کی، محنت اس کی، لیکن فائدہ اس کا نہیں وہ کسی اور کا ہے۔مزدور دن رات محنت کرتا ہے، رات کی شفٹ میں بھی کام کرتا ہے، کال سینٹرز میں کام کرنے والے نوجوان ساری رات جاگ کر کسٹمرز کو ڈیل کرتے ہیں اپنی نیند قربان کرتے ہیں اور معاوضے میں نہایت ہی کم تنخواہ لینے پر مجبور ہیں کیونکہ ملک میں روزگار کے مواقع بڑھنے کے بجائے روز بروز گھٹ رہے ہیں، ساری رات جاگ کر کام کر رہے ہیں اور تنخواہ انتہائی قلیل حاصل کرتے ہیں ۔حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے اس میں شک نہیں ایک فی صد یا 10 فی صد کی آمدن بہت بڑھ رہی ہے اور 45 فی صد ملکی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے جا رہی ہے۔ حکومت کو اپنی ترجیحات کا رخ اس جانب موڑنا ہوگا تاکہ آمدنی کی غیر مساوی تقسیم کو کنٹرول کیا جاسکے۔