انتہا پسندی ایک ایسا زہر ہے جو آہستہ آہستہ قوموں کی رگوں میں سرایت کر کے ان کی سوچ، اقدار اور اجتماعی نظام کو مفلوج کر دیتا ہے۔
انتہا پسندی کی بنیادی تعریف یہ ہے کہ کسی نظریے، عقیدے یا موقف کو اس حد تک درست سمجھ لیا جائے کہ اس کے علاوہ ہر سوچ غلط، گمراہ کن یا دشمن نظر آنے لگے۔
یہی رویہ عدم برداشت کو جنم دیتا ہے اور عدم برداشت بالآخر تشدد، نفرت اور انتشار میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس سماج نے بھی اعتدال، برداشت اور مکالمے کو ترک کیا وہ زوال پذیر ہوگیا۔
ملکی استحکام صرف مضبوط معیشت کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ہم آہنگ سماجی ڈھانچے، مؤثر اداروں، قانون کی بالادستی اور عوام کے باہمی اعتماد سے جڑا ہوتا ہے۔ جب انتہا پسندی فروغ پاتی ہے تو سب سے پہلے سماجی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔
لوگ ایک دوسرے کو مذہب، فرقے، زبان یا سیاسی وابستگی کی بنیاد پر تقسیم کرنے لگتے ہیں۔ نتیجتاً قومی استحکام کمزور پڑ جاتا ہے۔
ہمارے سماج میں انتہا پسندی کے فروغ کی کئی وجوہ ہیں۔ ان میں سب سے اہم وجہ تعلیم کا فقدان ہے۔ جب تعلیمی نظام، تنقیدی سوچ، تحقیق اور برداشت کی تربیت دینے میں ناکام ہو جائے تو نوجوان آسانی سے جذباتی نعروں اور شدت پسند بیانیے کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ غربت، بے روزگاری اور سماجی ناانصافی بھی انتہا پسندانہ رجحانات کو ہوا دیتی ہے۔ مایوس اور محروم افراد اکثر ایسے نظریات کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ۔
میڈیا اور سوشل میڈیا بھی اس معاملے میں دو دھاری تلوار ثابت ہو رہے ہیں۔ ایک طرف یہ شعور اور آگاہی کا ذریعہ ہیں تو دوسری طرف جھوٹی خبروں، نفرت انگیز مواد اور اشتعال انگیز بیانیے کو تیزی سے پھیلانے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔
انتہا پسند عناصر سوشل میڈیا کا استعمال نوجوان ذہنوں کو گمراہ کرنے کے لیے مؤثر انداز میں کر رہے ہیں جو ملکی استحکام کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
انتہا پسندی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ ریاستی اداروں پر عوام کے اعتماد کو متزلزل کرتی ہے۔ جب قانون کو ذاتی خواہشات کے تابع کر دیا جائے اور تشدد کو جائز قرار دینے کی کوشش کی جائے تو ریاست کی رٹ کمزور پڑ جاتی ہے۔
ایسے میں انتشار، لاقانونیت اور بدامنی جنم لیتی ہے جس کا براہِ راست نقصان عام شہری کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ملکی معیشت بھی انتہا پسندی سے بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ غیر یقینی صورتحال میں سرمایہ کاری رک جاتی ہے، سیاحت ختم ہو جاتی ہے، اور کاروباری سرگرمیاں سست پڑ جاتی ہیں۔
عالمی سطح پر بھی ایسے ممالک کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جہاں شدت پسندی عام ہو۔ نتیجتاً ملک سفارتی تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے، جو اس کے استحکام کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
امن و امان قائم رکھنا ریاست کی اولین ذمے داری ہے مگر مسئلے کی جڑ فکری اور سماجی سطح پر موجود ہوتی ہے۔ اس کے لیے ایک جامع اور طویل المدتی حکمتِ عملی درکار ہے۔
سب سے پہلے تعلیمی نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیں جہاں طلبہ کو برداشت، مکالمہ، اختلافِ رائے کے احترام اور تنقیدی سوچ کی تربیت دی جائے۔
علماء، دانشور، اساتذہ اور میڈیا کو بھی اپنا کردار ذمے داری سے ادا کرنا ہوگا۔ مذہب کو انتہا پسندی کے بجائے امن، رواداری اور انسانیت کے پیغام کے طور پر پیش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اسی طرح سیاسی قیادت کو بھی نفرت انگیز بیانات اور تقسیم در تقسیم کی سیاست سے اجتناب کرنا ہوگا کیونکہ غیر ذمے دارانہ سیاست سماجی تناؤ کو بڑھاتی ہے۔
نوجوان نسل اس جدوجہد کا سب سے اہم حصہ ہے، اگر نوجوانوں کو مثبت مواقع، معیاری تعلیم اور باعزت روزگار فراہم کیا جائے تو وہ انتہا پسندی کے بجائے تعمیر و ترقی کا راستہ اختیارکریں گے۔
ایک پرامید نوجوان ہی ایک مستحکم ملک کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔انتہا پسندی اور ملکی استحکام ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جہاں انتہا پسندی ہوگی وہاں استحکام نہیں ہوگا اور جہاں استحکام ہوگا وہاں انتہا پسندی پنپ نہیں سکے گی۔
یہ ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے کہ ہم اپنے رویوں، گفتگو اور فیصلوں میں اعتدال، برداشت اور شعورکو فروغ دیں۔ ایک پرامن متحد اور مستحکم ملک ہی ہماری آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ مستقبل کی ضمانت بن سکتا ہے۔
ریاست اور سماج کے تعلق کو مضبوط بنانا بھی انتہا پسندی کے تدارک کے لیے ناگزیر ہے۔ جب شہری خود کو ریاست کا برابر کا حصہ محسوس نہیں کرتے اور انھیں یہ گمان ہونے لگے کہ فیصلے ان کی مرضی کے بغیر مسلط کیے جا رہے ہیں تو بد اعتمادی جنم لیتی ہے۔
یہی بد اعتمادی انتہا پسندانہ بیانیے کے لیے زرخیز زمین فراہم کرتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں عوام اور ریاست کے درمیان فاصلے پہلے ہی موجود ہیں، وہاں عوامی شمولیت کو فروغ دینا ناگزیر ہو چکا ہے۔
شہریوں کو یہ احساس دلانا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے اور انصاف صرف طاقتورکے لیے مخصوص نہیں سماجی استحکام کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ سماجی اور ثقافتی سطح پر برداشت اور تنوع کو قبول کرنے کی روایت کو ازسر ِنو زندہ کرنا ہوگا۔ پاکستان مختلف زبانوں، ثقافتوں اور روایات کا حسین امتزاج ہے مگر بدقسمتی سے اس تنوع کو اکثر کمزوری سمجھا گیا۔
حالانکہ مضبوط قومیں وہی ہوتی ہیں جو اختلاف رائے کے ساتھ جینا سیکھ لیتی ہیں۔ یہ کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہے اور جو سماج ترقی کرتے ہیں ان میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے۔ ادب، فنونِ لطیفہ، تھیٹر اور مکالمے کے فورمز ایسے مؤثر ذرایع ہیں جو سماج میں نرمی، سوال اور خود احتسابی کو فروغ دے سکتے ہیں۔
جب سماج صرف یکساں سوچ کو قبول کرنے لگے تو جمود پیدا ہوتا ہے اور یہی جمود انتہا پسندی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
خواتین کا کردار بھی اس تناظر میں خصوصی توجہ کا طالب ہے۔ ایک ایسا سماج جہاں نصف آبادی کو فیصلہ سازی، تعلیم اور اظہار کے مواقع سے محروم رکھا جائے وہاں توازن کیسے قائم رہ سکتا ہے خواتین نہ صرف خاندان کی فکری تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں بلکہ سماجی رویوں کی منتقلی میں بھی مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔
ان کی تعلیم، معاشی خود مختاری اور سماجی شرکت کو فروغ دینا دراصل انتہا پسندی کے خلاف ایک مؤثر قدم ہے۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انتہا پسندی ایک دن میں پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہی ایک دن میں ختم کی جا سکتی ہے۔ یہ ایک طویل سماجی عمل کا نتیجہ ہے جس کے لیے مستقل مزاجی اور اجتماعی شعور درکار ہوتا ہے۔
ایک ایسا پاکستان جہاں اختلاف رائے کو دشمنی نہ سمجھا جائے جہاں سوال کو بغاوت نہ سمجھا جائے اور جہاں انسانیت کی قدر ہو حقیقی معنوں میں تب ہی ہم اپنے ملک کو مستحکم اور پرامن ملک بنا سکتے ہیں۔