بیرونِ ملک پاکستانی گداگر …لمحہ فکریہ

یہ نہ توکسی دشمن کا پروپیگنڈا ہے اور نہ ہی سوشل میڈیا کی فیک خبر بلکہ یہ وہ تلخ حقیقت ہے جسے خود حکومت پاکستان نے پارلیمنٹ میں تسلیم کیا ہے کہ سال 2025 کے دوران سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور آذربائیجان سے 32 ہزار سے زائد پاکستانی شہری بھیک مانگنے کے الزام میں گرفتار ہو کر ڈی پورٹ کیے گئے۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں، بلکہ پاکستان کی سماجی شناخت پر ایک بدنما داغ ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو دی گئی وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA) کی بریفنگ کے مطابق، صرف سعودی عرب نے ایک سال میں 24 ہزار پاکستانی شہریوں کو اس الزام کے تحت واپس بھیجا کہ وہ مساجد، بازاروں اور عوامی مقامات پر بھیک مانگ رہے تھے۔

بعض رپورٹس اس تعداد کو 56 ہزار بتاتی ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ کتنے پاکستانی بیرون ملک بھیک مانگتے ہوئے پکڑے گئے، بلکہ سوال یہ ہے کہ اس عمل کی وجہ سے دنیا پاکستانی کو کس نظر سے دیکھ رہی ہے؟

پاکستان اس وقت صرف معاشی مشکلات ہی نہیں بلکہ ایک خاموش مگر سنگین سفارتی اور اخلاقی بحران سے بھی دوچار ہے۔ یہ بحران اْن ہزاروں پاکستانی شہریوں سے جڑا ہے جو بیرونِ ملک، خصوصاً خلیجی ممالک میں بھیک مانگنے کے الزام میں گرفتار اور ڈی پورٹ کیے جا رہے ہیں۔

حالیہ سرکاری اور پارلیمانی رپورٹس نے اس مسئلے کی جو سنگینی آشکار کی ہے، وہ نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ قومی وقار کے لیے بھی ایک سنجیدہ سوالیہ نشان بن چکی ہے۔

یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ گداگری کوئی اچانک پیدا ہونے والا رویہ نہیں بلکہ انسانی تاریخ جتنا قدیم سماجی مسئلہ ہے۔ قدیم تہذیبوں، میسوپوٹیمیا، مصر، یونان اور روم میں وہ افراد جو ریاستی سرپرستی سے محروم تھے، وہ امیر طبقات اور مذہبی اداروں کی خیرات پر زندہ رہتے تھے۔

قرونِ وسطیٰ میں یورپ اور اسلامی دنیا میں خیرات اور صدقات کے مذہبی تصورات نے اس عمل کو سماجی قبولیت دی۔ گداگری غربت، عدم مساوات، جنگوں، قدرتی آفات اور جبری ہجرت کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ بعض اوقات انسانی اسمگلنگ اور منظم نیٹ ورکس اس مجبوری کو باقاعدہ کاروبار میں بدل دیتے ہیں۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی روزگاری، کمزور فلاحی نظام اور بیڈ گورننس نے گداگری کو ایک منظم ذریعہ معاش اور سماجی بحران بنا دیاہے۔

خلیجی ممالک میں پاکستانی پاسپورٹ اب ریڈ فلیگ کے زمرے میں ہے۔حال ہی میں متحدہ عرب امارات نے 6 ہزار پاکستانیوں کو ملک بدر کیا، جب کہ آذربائیجان جیسے ملک سے بھی 2,500 پاکستانی شہریوں کو اسی وجہ سے واپس بھیجا گی ہے۔

عمرہ، سیاحت یا روزگار بیرون ملک، پاکستانیوں کا ہر ویزا اب شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس صورتحال کی وجہ سے ہر وہ پاکستانی شہری اور محنت کش جو ہاتھ پھیلانے نہیں بلکہ عزت سے کام کرنے جاتا ہے، وہ بھی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔

جب ایک پاکستانی شہری بیرونِ ملک بھیک مانگتے ہوئے پکڑا جاتا ہے تو وہ صرف اپنی نہیں، بلکہ پورے ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے۔

یہ ساری صورتحال تو اپنی جگہ شرمناک ہے ہی لیکن اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اب بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں کی تذلیل کا آغاز اپنے ہی ملک کے ایئرپورٹس سے شروع ہو جاتا ہے۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان کے ہوائی اڈوں پر سیکڑوں مسافروں کو جہاز پر سوار ہونے سے محض اس شبہ کی بنیاد پر روک دیا گیا کہ وہ عمرہ یا سیاحتی ویزوں کی آڑ میں بھیک مانگنے یا غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے بیرون وطن جا رہے تھے۔یہ صورتحال ہماری گورننس اور ریاستی اسکریننگ سسٹم کی ناکامی ہی کہی جاسکتی ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس طرح بیرون ملک گداگروں کو اسمگل کرنے کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ کیا انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس ان اقدامات سے ختم ہو جائیں گے؟

ہمیں تو سوچنا یہ ہے کہ اصل مجرم کون؟کیا وہ بھوکا انسان؟یا وہ ایجنٹ جو خواب بیچتا ہے؟ یا وہ ہے جو روزگار، تعلیم اور سماجی تحفظ دینے میں ناکام ہے؟ اس سوال کا جواب ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے… لیکن مجبور ہیں اف اللہ… کچھ کہہ بھی نہیں سکتے… اور چپ رہ بھی نہیں سکتے۔

اس کالم کو تحریر کرتے ہوئے میں نے بھرپور کوشش کی کہ کسی بھی ذریعے سے یہ معلوم کر سکوں کہ پاکستان کے علاوہ بھی کیا کوئی اور ایسا ملک ہے جس کے شہری بھیک مانگنے کی غرض سے ملک سے باہر گئے ہوں اور انھیں ڈیپورٹ کیا گیا ہو ؟

یا دنیا کا کوئی اور ایسا ملک ہے جو اپنے ہی ایئرپورٹس پر بیرون ملک جانے والے اپنے ہی شہریوں کو محض اس وجہ سے آف لوڈ کر رہا ہو کہ وہ بیرون ملک جا کر بھیک مانگیں گے؟ میں نے اس جستجو میں انٹرنیٹ کی جو بھی ویب سائٹ کھولی وہاں صرف یہی لکھا ہوا آتا تھا کہ پاکستان کے علاوہ کوئی اور ایسا ملک نہیں ہے ۔

Similar Posts