غیر ملکی میڈیا کے مطابق اقوام متحدہ کی معاون خوراک کی نگرانی کرنے والی تنظیم (IPC) نے کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان اکتوبر میں طے شدہ جنگ بندی اور انسانی امداد کی بڑھتی ہوئی فراہمی کے بعد غزہ میں اب قحط نہیں ہے، تاہم شدید غذائی عدم تحفظ کا خطرہ برقرار ہے اور دوبارہ قحط کا امکان موجود ہے اگر امدادی سلسلے میں رکاوٹ آئے۔ ایجنسی رائٹرز سے بات کرنے والے دو امریکی حکام کے مطابق اقوامِ متحدہ کی منظوری سے بین الاقوامی فوجی دستے آیندہ ماہ کے اوائل میں غزہ کی پٹی میں تعینات کیے جا سکتے ہیں، تاہم یہ تاحال واضح نہیں کہ فلسطینی حماس کو کس طرح غیر مسلح کیا جائے گا۔
غزہ کے حوالے سے عالمی ادارہ خوراک کی جانب سے قحط کے خاتمے کے اعلان کو اگرچہ ایک بڑی خبر کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، مگر اس اعلان کے اندر چھپی ہوئی تشویش ناک حقیقتیں اس امر کی متقاضی ہیں کہ اس معاملے کو محض ایک وقتی کامیابی سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے۔
اسی بیان میں یہ انتباہ بھی شامل ہے کہ شدید غذائی عدم تحفظ کا خطرہ بدستور قائم ہے اور اگر امدادی سلسلے میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ آئی تو قحط دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے۔ یہ دو ٹوک حقیقت اس بات کی یاد دہانی ہے کہ غزہ میں انسانی بحران کی جڑیں محض خوراک کی وقتی فراہمی سے کہیں زیادہ گہری ہیں اور جب تک بنیادی سیاسی، سیکیورٹی اور انتظامی مسائل حل نہیں ہوتے، اس خطے میں پائیدار استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
غزہ امن معاہدے کی شقوں پر مکمل عملدرآمد، پھر چاہے وہ جنگ بندی ہو، فریقین کی ذمے داریوں پر عمل ہو یا انسانی امداد کی رسائی ہو، وہ امن کے لیے ضروری ہے اور اس میں اسرائیل کا تعاون ایک کلیدی عنصر ہے، بالخصوص معاہدے کی شقوں کا احترام اور اس کے اہداف کا حصول۔ اس تناظر میں اگر اسرائیل کچھ اہم نکات پر تعاون نہ کرے تو امن منصوبے کی کامیابی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ امن معاہدے کی کامیابی صرف دستاویز پر دستخط تک محدود نہیں بلکہ عملی نفاذ، فریقین کی رضا مندی اور بین الاقوامی کمیونٹی کے دباؤ سے ممکن ہے، جس میں اسرائیل کا تعاون ناگزیر ہے۔
انتہا پسند صیہونی انتظامیہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کی قبولیت کی سخت شرائط نے عالمی برادری خصوصاً مسلم برادری پر اچھی طرح واضح کردیا ہے کہ غزہ کا پر امن مستقبل صرف ایک خواب ہے، فلسطینی قوم اپنی ہی ریاست کو صیہونی ریاست بنتے ہوئے دیکھنے کا صدمہ برداشت کر چکی ہے۔
صیہونی ریاست نے اپنی ریاست کے تحفظ و بقاء کے لیے فلسطینیوں کا جینا اجیرن کر رکھا ہے۔ غزہ کے باسیوں کی زندگی جہنم سے کم نہیں اور اسے جہنم بنانے والے ہیں متعصب، کٹر اور انتہا پسند یہودی جو فلسطینی ریاست پر اپنا حق جتاتے ہوئے فلسطینیوں پر نہ صرف ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے رہے بلکہ مزید یہودی بستیوں کی تعمیر بھی ڈھٹائی سے کر رہے ہیں۔
غزہ میں قحط کے خاتمے کا اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی ضمیر پہلے ہی طویل عرصے سے اس خطے میں انسانی المیے پر سوالات اٹھا رہا ہے۔ لاکھوں فلسطینی شہری، جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں، گزشتہ کئی مہینوں سے خوراک، صاف پانی، طبی سہولیات اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات سے محروم رہے۔ جنگ بندی کے بعد اگرچہ امدادی سامان کی ترسیل میں اضافہ ہوا ہے اور اسرائیلی حکام نے روزانہ کی بنیاد پر امدادی سامان کی درآمد کی تصدیق بھی کی ہے، لیکن حماس کی جانب سے اس امداد کو ناکافی قرار دینا اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ زمینی صورت حال اب بھی انتہائی نازک ہے۔
امداد کی مقدار، اس کی منصفانہ تقسیم اور ضرورت مندوں تک اس کی بروقت رسائی ایسے سوالات ہیں جن کے تسلی بخش جوابات تاحال سامنے نہیں آ سکے۔ شدید غذائی عدم تحفظ کا خطرہ برقرار رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ غزہ کی معیشت، زراعت، رسد کے نظام اور روزگار کے مواقع مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ جب تک ان بنیادی ڈھانچوں کی بحالی نہیں ہوتی، اس وقت تک خوراک کی عارضی فراہمی بھی دیرپا نتائج نہیں دے سکتی۔
اس پس منظر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا یہ فیصلہ کہ ایک بین الاقوامی استحکامی فورس کو نئی تربیت یافتہ اور جانچ پڑتال سے گزرنے والی فلسطینی پولیس کے ساتھ مل کر غزہ میں سیکیورٹی مستحکم کرنے کی اجازت دی جائے، ایک اہم مگر پیچیدہ قدم ہے۔ سیکیورٹی کے بغیر انسانی امداد کا تسلسل ممکن نہیں اور امن و امان کے بغیر بحالی کے عمل کا آغاز بھی نہیں ہو سکتا۔ تاہم بین الاقوامی فوجی دستوں کی تعیناتی ہمیشہ سے حساس معاملہ رہی ہے، خاص طور پر ایسے خطے میں جہاں بیرونی مداخلت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا یہ فورس واقعی غیر جانبدار کردار ادا کر پائے گی یا پھر علاقائی سیاست کا ایک نیا میدان بن جائے گی۔
امریکا کی جانب سے اس عمل میں پاکستان کے ممکنہ کردار کا ذکر اور واشنگٹن کی طرف سے اسلام آباد کا شکریہ ادا کرنا بھی قابل غور ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان سے نہ صرف رضامندی طلب کی جا رہی ہے بلکہ اسے ایک ممکنہ شراکت دار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کسی بھی باضابطہ وعدے سے قبل مزید وضاحت درکار ہے۔
پاکستان کے لیے یہ ایک نازک سفارتی لمحہ ہے جہاں ایک طرف فلسطینی عوام کے ساتھ اس کی تاریخی ہمدردی اور اصولی موقف ہے، تو دوسری طرف عالمی برادری کے ساتھ تعاون کے تقاضے۔ کسی بھی قسم کی فوجی یا سیکیورٹی شمولیت سے قبل پاکستان کو اپنے قومی مفادات، داخلی حالات اور علاقائی اثرات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ تاہم یہ ابہام کہ حماس کو کس طرح غیر مسلح کیا جائے گا، اس پورے منصوبے پر سوالیہ نشان ہے۔ حماس نہ صرف غزہ کی ایک بڑی سیاسی اور عسکری قوت ہے بلکہ وہاں کے ایک بڑے حصے کی نمایندگی بھی کرتی ہے۔ اسے مکمل طور پر نظر انداز کرنا یا زبردستی غیر مسلح کرنے کی کوشش خطے میں مزید بدامنی کو جنم دے سکتی ہے۔ ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ عسکری حل اکثر مسائل کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھا دیتے ہیں۔
یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ عالمی برادری کی ذمے داری کہاں تک محدود ہے۔ کیا صرف خوراک اور امدادی سامان فراہم کر دینا کافی ہے یا پھر اس بحران کے بنیادی اسباب کو حل کرنا بھی عالمی ضمیر کا تقاضا ہے؟ غزہ میں دہائیوں سے جاری محاصرہ، نقل و حرکت پر پابندیاں، معاشی ناکہ بندی اور بار بار کی عسکری کارروائیاں اس خطے کو مسلسل عدم استحکام کی طرف دھکیلتی رہی ہیں۔ جب تک ان پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں ہوتی، اس وقت تک قحط کے خاتمے جیسے اعلانات محض اعداد و شمار کی حد تک ہی رہیں گے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی نے یقینا امدادی سرگرمیوں کے لیے ایک کھڑکی فراہم کی ہے، لیکن یہ جنگ بندی کتنی دیرپا ثابت ہوگی، اس بارے میں کوئی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ماضی میں بھی ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں جہاں جنگ بندی چند ہفتوں یا مہینوں سے زیادہ برقرار نہیں رہ سکی۔ ہر بار اس کا سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں کو اٹھانا پڑا، جن کی زندگیاں پہلے ہی عدم تحفظ، خوف اور محرومی کے سائے میں گزر رہی تھیں۔
پاکستان سمیت دیگر مسلم اور غیر مسلم ممالک کے لیے بھی یہ ایک امتحان کی گھڑی ہے کہ وہ اس بحران میں کس حد تک مؤثر اور اصولی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ محض بیانات اور قراردادیں اب کافی نہیں رہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عملی اقدامات کیے جائیں جو نہ صرف فوری انسانی امداد کو یقینی بنائیں بلکہ طویل المدتی حل کی بنیاد بھی رکھیں۔ اس میں فلسطینیوں کے حق خود ارادیت، ایک منصفانہ سیاسی تصفیے اور بین الاقوامی قوانین کے احترام کو مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔
اگر عالمی برادری نے اس موقع کو سنجیدگی سے نہ لیا، اگر امدادی سلسلے کو سیاست کی نذر کر دیا گیا اور اگر طاقت کے استعمال کو حل سمجھا گیا تو یہ عارضی کامیابی بہت جلد ایک نئے المیے میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ غزہ کے عوام کو صرف خوراک نہیں، امید، تحفظ اور ایک باعزت مستقبل کی ضرورت ہے، اور یہ سب اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دنیا اس مسئلے کو محض خبری سرخیوں کے بجائے ایک اجتماعی ذمے داری کے طور پر قبول نہ کرے۔
آخرکار یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ قحط کا خاتمہ کسی ایک ادارے یا ایک جنگ بندی کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ یہ مسلسل کوششوں، سیاسی عزم اور انسانی ہمدردی کا تقاضا کرتا ہے۔ غزہ میں آج اگر بھوک کی شدت میں کمی آئی ہے تو یہ ایک موقع ہے کہ اس خطے کو مستقل طور پر اس دائرہ مصیبت سے نکالنے کے لیے ٹھوس اور دور رس فیصلے کیے جائیں۔ بصورت دیگر تاریخ گواہ ہے کہ نظر انداز کیے گئے زخم پھر سے رسنے لگتے ہیں اور ان کا درد پہلے سے کہیں زیادہ شدید ہوتا ہے۔