ماہِ دسمبر کے آخری ہفتے میں پَت جھڑ کا اُداس اور ملال انگیز موسم شروع ہو جاتا ہے ۔پَت جھڑ کا موسم بھی مگراپنے باطن میں رومانویت رکھتا ہے ۔ دسمبر کی ٹھٹھڑتی ہُوئی شامیں، کہر میں لپٹی دُھندلی صبحیں، دَم بہ دَم بڑھتے خزاں کے ہاتھ، خشک زرد پتّوں کی بے آواز موت اور یاس انگیز سموگ اور فوگ کی دبیز چادر!یہ سب دسمبر کے جلال وجمال کی متنوع تصویریں ہیں۔ کسی مصور کے مُو قلم کو آوازیں دیتا ماہِ دسمبر!!
لیکن تہی دست اور تہی جیب رکھنے والے ہموطنوں کے لیے دسمبر کے مہینے میں کوئی دلکشی نہیں ہے۔ ہاتھ اور جیب خالی ہوں تو کہاں کی رومانویت ؟ 2025 کارواں دسمبر تو اپنے ظاہر اور باطن میں کئی اُن معروف اہلِ وطن کے لیے سزاؤں کا ’’سندیسہ‘‘ لے کر طلوع ہُوا ہے جو پسِ دیوارِ زنداں ہیں ، اور سزا بھگت رہے ہیں ۔ یہ ستم گر دسمبر اِن افراد کے لیے مزید سزاؤں کا حزیں پیغام لے کر آیا ہے ۔
مثال کے طور پر (۱) رواں دسمبر کی11تاریخ کو پاکستان کے سب سے طاقتور انٹیلی جنس ادارے کے سابق سربراہ، جنرل (ر) فیض حمید، کو فوجی عدالت نے14سال بامشقت کی سزا سنا کر سب کو حیران کر دیا(۲)اِسی مہینے کی 19تاریخ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک معروف و معزز جج، جسٹس طارق محمود جہانگیری، کو قانون کی ڈگری مبینہ طور پر ’’غیر معتبر‘‘ قرار دیے جانے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا (۳) دسمبر2025ء کی 20تاریخ کو سابق منتخب وزیر اعظم و بانی پی ٹی آئی اور اُن کی اہلیہ ، بشریٰ بی بی، کو توشہ خانہ ٹُو کے مقدمے میں مجموعی طور پر سترہ، سترہ سال کی سزائیں سنا دی گئیں (۴) ابھی بانی پی ٹی آئی کو سنائی جانے والی سزا کی بازگشت و دھمک مدہم بھی نہ پڑی تھی کہ چند گھنٹوں بعد، 20دسمبر ہی کو، لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی کے چار معروف سیاستدانوں ( ڈاکٹر یاسمین راشد، عمر سرفراز چیمہ، میاں محمود الرشید اور اعجاز چوہدری ) کو دس، دس سال کی سزائیں سنا دی گئیں ۔ یوں دسمبر2025 پاکستان میں سینئر سیاستدانوں کو لمبی لمبی قید و بند کی سزائیں سنائے جانے کے حوالے سے ایک ناقابلِ فراموش اور یادگار مہینہ بن گیا ہے ۔
پی ٹی آئی کے چاروں معروف سیاستدانوں کو جن جج صاحب نے سزائیں سنائی ہیں، اُن کا اسمِ گرامی منظر علی گل ہے ۔ چاروں مذکورہ سزا یافتہ سیاستدانوں کو گورنمنٹ آفیسرز ریزیڈنس آئی کلب چوک (لاہور) کے داخلی گیٹ پر مبینہ حملے میں سزا سنائی گئی ہے ۔ سزا سنائے جانے کے وقت پی ٹی آئی کے مذکورہ چاروں سیاستدان ( جو اپنے وقت کے رکن اسمبلی، وزیر، سنیٹر ، گورنر بھی رہے) لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں، 9مئی 2023 کو ہونے والے تشدد کے مختلف مقدمات میںمجرم قرار دیے جانے کے بعد پہلے ہی قید میں تھے اور بانی پی ٹی آئی اور اُن کی اہلیہ محترمہ کو بھی جب جج(شاہ رُخ ارجمند صاحب) نے لمبی لمبی قیدو بند کی سزائیں سنائیں، اُس وقت بھی دونوں میاں بیوی راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید تھے ۔ سزا سنائے جانے کے وقت میاں بیوی (جیل کی) عدالت میں خود بھی موجود تھے ۔
حکومت اور وزرا کا دعویٰ ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی ، دونوں ’’پوری طرح صحتمند‘‘ تھے ۔ جس خصوصی جج صاحب نے دونوں میاں بیوی کو سزائیں سنائیں ، انھوں نے اپنے طویل فیصلے میں مبینہ طور پر یہ الفاظ خصوصی طور پر رقم فرمائے:’’یہ عدالت سزا سناتے وقت عمران احمد خان نیازی کی عمر رسیدگی اور بشریٰ عمران خان کے خاتون ہونے کے پہلوؤں کو مدِنظر رکھتی ہے ۔ اِنہی عوامل کے باعث کم سزا دیتے ہُوئے نرمی برتی گئی ہے۔‘‘ یعنی جج صاحب دونوں میاں بیوی پر ترس کھا گئے ؟
فطری طور پر پی ٹی آئی ، اِس کے وابستگان و عشاق اور اِس کے چھوٹے بڑے لیڈرز بانی پی ٹی آئی اور اُن کی اہلیہ کو سزائیں سنائے جانے پر سخت ناراض و نالاں ہیں ۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ اِن سزاؤں پر مشتعل ہو کر بھڑک اُٹھے ہیں ۔ بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرگان اور بشریٰ بی بی کی نندیں بھی اِس فیصلے پر شدید ناراض ہیں اور یہ کہتی سنائی دی گئی ہیں کہ’’فیصلہ سناتے وقت انھیں اپنے بھائی تک رسائی نہ دے کر ظلم کیا گیا ہے۔‘‘ پی ٹی آئی کے وکلا نے سزا سنانے والی عدالت کو اُسی نام سے یاد کیا ہے جس نام سے محترمہ بے نظیر بھٹو اُن عدالتوں کو یاد کیا کرتی تھیں جو انھیں اور اُن کے میاں کو سزائیں سنایا کرتی تھیں ۔
یہ ردِ عمل غیر متوقع اور غیر فطری نہیں ہے ۔توقع تھی کہ اِس فیصلے کے ردِ عمل میں پی ٹی آئی کے عشاق فِیل مچائیں گے ؛ چنانچہ حکومت نے متوقع ردِ عمل کے انسداد کے لیے پنڈی اور لاہور میں ، کئی مقامات پر، بڑی بڑی رکاوٹیں بھی کھڑی کر دی تھیں ۔کچھ شرارتی لوگ متوقع تماشہ دیکھنے کے لیے وہاں گئے بھی تھے ، پر تماشہ نہ ہُوا ۔کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ پی ٹی آئی کی قوتِ احتجاج کمزور ہوتے ہوتے بالکل ہی ماند پڑ چکی ہے ؟
بانی پی ٹی آئی اور اُن کی باپردہ اہلیہ محترمہ کو لمبی لمبی سزائیں ہی نہیں سنائی گئیں بلکہ دونوں کو ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد کا جرمانہ بھی سنایا گیا ہے ۔جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں دونوں مجرمان کو مزید ایک سال کی سزا بھگتنا پڑے گی ۔ ایک دوست و دولتمند برادر ملک نے دونوں میاں بیوی کو قیمتی تحائف دیے تھے ۔ الزام یہ ہے کہ قیمت ادا کرکے کروڑوں مالیت کے اِن تحائف کو اپنے پاس رکھنے کے لیے جو سرکاری ضوابط وضع کیے گئے ہیں، مبینہ طور پر تحائف کی کم قیمت لگا کر سرکاری ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی۔
کسی کو بھی توقع نہیں تھی کہ بے ضابطگی کیے جانے کی اتنی سنگین سزائیں بھی ہو سکتی ہیں ۔ ایسا مگر اب ہو چکا ہے۔ پی ٹی آئی سناٹے میں ہے اور دُنیا بھر میں جہاں جہاں یہ خبر پہنچی ہے، وہ بھی ششدر ہیں ۔ ششدر اور حیران ویسے ہونا تو نہیں چاہیے کہ دُنیا میں کئی ایسے ممالک موجود ہیں جہاں کے عمال اور عمائدین کو ایسے ہی الزامات کے تحت قیدو بند اور بھاری جرمانے کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں ۔ وطنِ عزیز میں ایسی مثالیں پہلی بار قائم کی جارہی ہیں ۔ جنرل (ر) فیض حمید ایسے سابق طاقتور ترین شخص کو14سال کی سزا بامشقت سنا کر بھی نئی مثال اور نظیر قائم کی گئی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور اُن کی اہلیہ کو سنائی جانے والی تازہ ترین سزا کے بعد کیا حکومت، پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ میں متوقع مفاہمت کے تمام راستے مسدود اور محدود تر ہو گئے ہیں؟ اِس فیصلے کے بعد وطنِ عزیز میں سیاسی کشیدگی اور عدم استحکام میں (خدانخواستہ) مزید اضافہ ہوگا ۔ پی ٹی آئی ناراض ہے ۔ ناراضی کے اِس ماحول میں پی ٹی آئی کی جانب سے کون مردِ قلندر ہوگا جو حکومت اور اصل فیصلہ سازوں کے سامنے مفاہمت کے لیے ہاتھ بڑھائے گا؟ ایسے میں اگرچہ یہ خبر بھی شایع ہُوئی ہے کہ کوٹ لکھپت جیل میں مقید پی ٹی آئی کے پانچوں لیڈروں نے اپنے وکیل (رانا مدثر) کے ذریعے ایک خط میں اِس خواہش کا ایک بار پھر اظہار کیا ہے کہ’’ مفاہمت اور ڈائیلاگ ہی سے پارٹی اور ملک کو درپیش بحرانوں کا حل نکل سکتا ہے۔‘‘
اِس مبینہ خط کو’’نہ مفاہمت، نہ مزاحمت، صرف سیاست‘‘ کا عنوان بھی دیا گیا ہے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ تازہ ترین سزاؤں کی موجودگی میں ثمر آور سیاست کے لیے ہاتھ اور قدم کون آگے بڑھائے گا؟ اندرونِ ملک و بیرونِ ملک کثیر الجہتی احتجاجات کرکے تو پی ٹی آئی نے دیکھ لیے ہیں۔ 20دسمبر 2025 کو ’’خیبر پختونخوا ہاؤس اسلام آباد ‘‘ میں’’ تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان‘‘ نے قومی کانفرنس کرکے بھی دیکھ لی ہے ۔ کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہُوا ۔ مونچھ نیچی کرکے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے سے شاید حسبِ خواہش نتیجہ نکل آئے۔