اس میں تحریک تحفظ آئین نے ہم خیال لوگ ہی بلائے تھے۔ اختلاف رائے رکھنے والے کسی بھی شخص خواہ وہ کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہو، اس ہم خیال کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا۔ صحافی، وکلاء اور سیاستدان بھی وہی بلائے گئے جو ہم خیال تھے۔ ہم خیال لوگوں کی کانفرنس کو قومی کانفرنس کیسے کہا جا سکتا ہے۔
جن سیاسی رہنماؤں کو بھی بلایا گیا، ان کو بھی میں سیاسی انفلوئنسر ہی کہتا ہوں۔ جیسے سوشل میڈیا انفلوئنسر ہیں، ایسے ہی سیاسی انفلوئنسر بھی ہیں، جن کی کوئی سیاسی جماعت نہیں۔ یا وہ اکیلے ہی اپنی جماعت کے نمایندے ہیں۔ ان کی جماعت میں ان کے سوا کوئی نہیں۔ وہ سب اپنی ذات میں ہی انجمن ہیں۔
اس لیے اس کانفرنس میں ہمیں ایسے سیاسی انفلوئنسر کی بڑی تعداد نظر آئی جن کا ویسے کوئی سیاسی وزن نہیں۔ لیکن اس کانفرنس میں انھیں غیر معمولی اہمیت دی گئی تھی۔ ان کو بلانے کا فائدہ ہے یا نقصان۔ میں سمجھتا ہوں ان کا اسٹیک پر کچھ نہیں۔ اس لیے وہ اس کھیل کے کوئی فریق نہیں۔وہ تماشائی ہیں، سیاسی تجزیہ نگار ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ انھیں فریق سمجھیں تو درست نہیں ہوگا ۔ وہ اکیلے ہیں، اس لیے سیاست میں اکیلے کی کوئی اہمیت نہیں۔
ایک طرف تحریک تحفظ آئین مذاکرات کی بات کرتی ہے تو دوسری طرف دوسرے فریق کے ساتھ بیٹھنے کو بھی تیار نہیں۔ قومی کانفرنس میں ان کو مدعو ہی نہیں کیا گیا۔ جب آپ ان کو بلانے کے لیے تیار نہیں، پھر بات کیسے ہو سکتی ہے۔ آپ اپنی ہم خیال کانفرنس میں ان کو نہیں بلاتے، وہ اپنی حکومتی کانفرنس میں آپ کو نہیں بلاتے۔ دونوں نے اپنے اپنے الگ گھر بنائے ہوئے ہیں۔ ایسے میں مفاہمت یا مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ یہ قومی کانفرنس ملک میں کسی وسیع ڈائیلاگ یا مفاہمت کے لیے کوئی راہ ہموار کر سکے گی۔ اس کا آغاز ہی درست نہیں ہے۔
پھر یہ بات بھی تحریک انصاف کو سمجھنی ہوگی کہ مشروط ڈائیلاگ ان سے کوئی نہیں کرے گا۔ اس وقت وہ کسی مضبوط پوزیشن میں نہیں ہیں، اس لیے ڈائیلاگ مشروط نہیں ہو سکتے۔ آپ ڈائیلاگ سے پہلے کوئی شرط نہیں رکھ سکتے۔ اسی طرح مذاکرات سے پہلے ملاقات کی شرط بھی مذاکرات کو ناکام بنانے کا ہی اعلان ہے۔ اس وقت حکومت کوئی ایسی مشکل میں نہیں کہ آپ کی شرائط مان کر مذاکرات کرے۔ ایسا نہیں ہے کہ ماضی میں ایسا نہیں ہوا ۔
ماضی میں حکومت نے ملاقات کی شرائط مانی بھی ہیں لیکن آج وہ صورتحال نہیں۔ سیاست میں ماضی کے تناظر میں فیصلے نہیں ہوتے۔ سیاست میں آج کے تناظر میں فیصلے ہوتے ہیں۔ یہی حکومت 26اور 27ویں ترمیم سے پہلے اتنی مضبوط نہیں تھی۔ آج مضبوط ہے۔ اس لیے تحریک تحفظ آئین کو آج کے تناظر میں فیصلے کرنے ہوں گے۔ آج مشروط مذاکرات کا کوئی ماحول نہیں، غیرمشروط مذاکرات سے آگے بڑھنے کا ماحول ہے۔
ایک بات سمجھنے کی ہے کہ بے شک تحریک تحفظ آئین اور محمود اچکزئی جتنا مرضی کہیں کہ ہم بانی تحریک انصاف کے ضامن ہیں۔ لیکن سب کو پتہ ہے کہ محمود خان اچکزئی کی ضمانت کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان کا تحریک انصاف کے سامنے کوئی وزن نہیں۔ اہمیت بانی تحریک انصاف کی ہے۔ اس وقت مسئلہ یہی ہے کہ باہر سب بے اختیار ہیں۔ جیل میں بیٹھا قیدی کسی کو کوئی اختیار دینے کے لیے تیار نہیں، اس لیے باہر لوگوں سے بات کرنے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں۔
جس جماعت کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہ ہو، اس سے کیا بات ہو سکتی ہے۔ جس کی کور کمیٹی ڈمی ہو، اس کے فیصلے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے جائیں۔ جس کی سیاسی کمیٹی کبھی توڑ دی جائے کبھی بنا دی جائے، جہاں کسی کی کوئی اہمیت نہیں۔ کسی کوکوئی معلوم نہیں کہ کب کوئی غدار ہو جائے۔ کب کوئی میر جعفر ہوجائے۔ جب سب کو پتہ ہے کہ چیئرمین بیرسٹر گوہر کے پاس بھی کوئی اختیار نہیں، تب کوئی ان سے بات کیوں کرے۔ ماضی میں کئی دفعہ ہوا ہے، تحریک انصاف کے ساتھ بات چیت آخری مرحلہ میں داخل ہوئی اور بانی نے طے ہوئی بات ختم کر دی۔ اس لیے آج کوئی بات کرنے کو تیارنہیں۔
میں سمجھتا ہوں حکومت کے پاس کوئی گارنٹی نہیں کہ باہر بیٹھے لوگوں سے بات کی جائے تو بات طے ہوگی۔ اگر بات آخر میں قیدی نے ہی طے کرنی ہے تو پہلے باہر والوں سے بات کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ جب حکومت کو ضرورت ہوگی وہ قیدی سے بات کر لے گی۔ باہر والوں کی نہ کل کوئی اہمیت تھی نہ آج کوئی اہمیت ہے۔ شاید قیدی نے جان بوجھ کر یہ صورتحال رکھی ہوئی ہے تاکہ اس کی اہمیت کم نہ ہو جائے۔ باہر سے کوئی اس کی جگہ نہ لے لے۔
جہاں تک آٹھ فروری کو پہیہ جام کی بات ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ اس وقت تحریک انصاف ملک بھر میں پہیہ جام ہڑتال کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ پنجاب میں ہڑتال نہیں ہوگی، سندھ میں نہیں ہوگی، کے پی بند کر کیا حاصل ہو جائے گا۔ ابھی سزاؤں کے بعد صرف کے پی میں احتجاج ہوا ہے، اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ کے پی میں کوئی بڑا احتجاج نہیں ہوا۔ اس لیے تحریک انصاف کی مزاحمتی سیاست میں کمزوری بھی حکومت کے حق میں جا رہی ہے۔ حکومتی حلقے سمجھ رہے ہیں کہ اب سڑکوں پر احتجاج سے انھیں گھر نہیں بھیجا جا سکتا۔ ایک نئی اسٹریٹ موومنٹ کی بات کی جا رہی ہے۔
اس کے خدو خال کیا ہونگے۔ کے پی کے اندر احتجاج کوئی معنی نہیں رکھتا، پنجاب میں ایسا کرنے کی طاقت نہیں رہی۔ کیا اسلام آباد پر چڑھائی ہوگی۔ کب ہوگی۔ موسم سرد ہے۔ ابھی تو اڈیالہ کے باہر سردی کی وجہ سے لوگ نہیں رکتے۔ موسم کے بدلنے کا انتظار کرنا ہوگا۔ کیا تب تک دیر نہیں ہو جائے گی۔ یہی بات قیدی کو بھی پریشان کر رہی ہے۔ وہ جانتا ہے اس کے پاس بھی وقت کم ہے، کھیل اس کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔
ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ تحریک انصاف اور تحریک تحفظ آئین کے پاس کیا آپشن ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ راستہ سڑکوں کے بجائے پارلیمان سے نکلے گا۔ انھیں قائمہ کمیٹیوں میں واپس جانا چاہیے۔ پارلیمان میں حکومت کے ساتھ بات کرنے کرکے راستے تلاش کرنے چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کے راستے بھی وہیں سے نکلیں گے۔ جب وہ قانون سازی میں موثر کردار ادا کریں گے تو راستے نکلیں گے۔ لیکن ابھی ایسا ماحول نظر نہیں آرہا۔