بانیٔ تعلیم قہرخداوندی

علامہ بریانی عرف برڈ فلو۔ زورآور آدمی ہے ورنہ بات اتنی تھی ہی نہیں جتنا اس نے اس کا بتنگڑ بنا لیا تھا بلکہ اس دنیا میں کوئی بھی بات بڑی بات یا نئی بات نہیں ہوتی:

سیف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے

ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں

ہوا یوں کہ قہرخداوندی چشم گل عرف کوئڈ نائنٹین نے خود کو ’’خود ہی بانی‘‘ کا خطاب دیا خود کو خود ہی ’’بانی‘‘ کے مرتبے پر فائز کیا تھا۔اب نہ تو خود کو خود ہی کسی مرتبے یا عہدے پر فائز کرنا نئی بات ہے اور نہ’’بانی‘‘ کوئی نیا خطاب ہے، بہت سارے بانی بنتے ہیں اور بنتے رہیں گے۔

نہ تو ’’بانی‘‘ کا لفظ کسی کی ملکیت ہے نہ کسی کے نام پر رجسٹرڈ ہے ،کسی کے باپ کا مال ہے، دوسرے الفاظ میں ’’شاملات دیہہ‘‘ ہے جو چاہے اسے ’’یوز‘‘ بھی کرسکتا ہے اور مس یوز بھی۔اور قہرخداوندی نے تو اسے کچھ زیادہ یوز یا مس یوز بھی نہیں کیا ہے اس نے ملک بھر میں اس لفظ’’بانی‘‘ سے اتنے چرچے سنے تو بیچارے کا دل للچایا۔دل ہی تو ہے کوئی سنگ و خشت نہیں لالچ سے بھر نہ آئے کیوں:

دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں

بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیر ہمیں اٹھائے کیوں

ماہر تعلیم تو وہ پہلے سے تھا کیونکہ اس نے ان پڑھ ہوکر بھی اس پورے علاقے میں پرائیوٹ اسکولوں کا’’جال‘‘ بچھا دیا تھا۔یہ تو اپنے اپنے نصیب اور اپنی اپنی مہارت کی بات ہے، اکبر بادشاہ بھی الف لٹھ تھا لیکن اس نے اپنے دربار میں اس وقت کے ٹاپ کلاس ماہرین اور علما کو جمع کرکے ’’دین‘‘ بنایا تھا۔ٹھیک ہے قہرخداوندی ان پڑھ تھا، جاہل تھا، اُجڈ تھا لیکن علاقے میں پرائیویٹ یا انگلش میڈیم اسکول تو اس نے کھمبیوں کی طرح اگا دیے تھے تو یہ کمال تو اس نے دکھا دیا تھا کوئی روزہ نہ رکھ سکے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سحری اور افطاری بھی نہ کرے ۔کوئی سیدھی راہ دکھائے اور اگر کوئی خود کو خود ہی ترقی دے تو اس میں اعتراض کیا ہوسکتا ہے۔

کوئی اپنی بھینس کو ڈنڈا اور مرغی کو انڈا مارے تو دوسروں کو کیا۔ علامہ بریانی عرف برڈ فلو کو اس میں تکرار کیا تھی اگر قہرخداوندی نے خود کو ’’بانی تعلیم‘‘ کا لقب دے لیا تو کیا ہوا۔ اردو کا ایک چار حرفی لفظ ہی اپنا لیا ہے یا یوز کیا ہے جو علامہ اس پر بھڑک اٹھا اور اتنا بھڑکا اتنا بھڑکا کہ بھڑک بھڑک کر فوق البھڑک ہوگیا۔

اپنے خطبہ جمع میں بولے بلکہ گرجے۔کہاں کا بانی کیسا بانی، کون بانی، کیا بانی۔ہوا یوں تھا کہ جب باہر کے ریٹائرڈ محکمہ تعلیم کے گریڈ چہارم کے ایک ماہر تعلیم نے گاؤں میں انگلش میڈیم اسکول کھولا تو ٹیچرز کا تو کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ بے تحاشا تعلیم نسواں کی برکت سے ہر گھر میں دو چار ٹیچرس مل جاتی تھیں جو خوشی خوشی آٹھ ہزار پر دستخط کرکے آٹھ سو پر راضی ہوجاتی تھیں لیکن مسئلہ ایک ایسے انتظامی ٹیچر کا آپڑا تھا جو کندہ ناتراش اور بدمعاش و اوباش لڑکوں یعنی ٹیڑھوں کو سیدھا کرکے کمروں میں بٹھا سکے اور انھیں اسکول کی جانب سے پیش کیا جانے والا’’تعلیمی سامان‘‘ خریدنے پر ان کے والدین کو تیار کرسکے اور یہ قرعہ فال قہرخداوندی چشم گل چشم کے نام پڑا وہ چونکہ ان مروجہ علوم میں سند یافتہ تھا جو ٹیڑھے کو سیدھا اور سیدھے کو ٹیڑھا بناتے ہیں لیکن اس کی شرط یہ تھی کہ اسے چپڑاسی یا کچھ اور نہ کہا جائے بلکہ ٹیچروں میں شمار کیا جائے۔پھر جب اسکول کے بانی ریٹائرڈ درجہ چہارم کے ماہر تعلیم کو ایک سینئر طالب کے باپ نے چھرے مار مار کر کیفرکردار تک پہنچایا تو اس کے وارثوں نے اسکول پہنچنے کا اعلان کیا۔ قہرخداوندی اپنے بہت سارے روزگاروں سے اتنا کما چکا تھا کہ اسکول خرید سکے۔

اسکول خرید کر اس نے اسکول میں بلکہ اسکول کے بورڈ میں تھوڑی سی تبدیلی کی، ماہر تعلیم اور پرنسپل کی جگہ اس نے صرف اپنا نام لکھوایا اور پھر کچھ اتنی زیادہ ترقی کرگیا کہ اس گاؤں کے علاوہ اردگرد کے دیہات میں بارہ اسکول کھول دیے۔ظاہر ہے کہ اب اسے خود کو خود ہی’’ماہر تعلیم‘‘ کی جگہ ’’بانی‘‘ کا نام استعمال کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔لیکن علامہ نے پاکستانی حکومتوں، صدوروں، وزیراعلوں اور وزیروں کی طرح اس کا سختی سے نوٹس لے لیا ، وہ بھی خود از خود۔قہرخداوندی نے ہم سے شکایت کی کہ اپنے اس علامٹے کو پٹہ ڈال دیں ورنہ… ہمیں معلوم تھا کہ اس ورنہ کے بعد وہ کیا کیا اور کیا کچھ کچھ کرسکتا ہے حالانکہ لفظ اپنا پر ہمیں اعتراض تھا کیونکہ علامہ ہمارا تو کیا کسی کا بھی اپنا نہیں تھا :

فراز اپنے سوا ہے کون تیرا

تجھے خود سے جدا دیکھا نہ جائے

اور قہرخدواندی کو اسے خود سے جدا کرنا کچھ بھی دشوار نہیں تھا۔لیکن ہمارے سمجھانے پر علامہ سمجھنے کے بجائے اور نا سمجھ ہوگیا۔اور اپنے حلق کی گہرائی سے الفاظ نکال کر مارنے لگا۔بولے نہیں چھوڑوں گا میں اس جھوٹے بانی امبانی لمبانی کمبانی کو۔میں اس علاقے کا دنیاوی،ایمانی انسانی اور سروسامانی محافظ ہوں۔اور نسوانی بھی۔لیکن یہ بات ہم نے اپنے دل میں اپنے دل سے کہی کیونکہ وہ کچھ عرصہ پہلے ’’مدرسۃ للبنات‘‘ بھی کھول چکے تھے جو پہلے اس کے گھر کے اندر چل رہا تھا۔

ہمارے لاکھ سمجھانے کے باوجود وہ نہیں مانے۔بولے پناہ بخدا، بانی اور وہ بھی تعلیم کا۔اگر وہ خود کو کسی اور چیز کا بانی بتاتا تو کچھ بات بھی تھی مثلًا جرائم، منشیات،حرام خوری،سینہ زوری، چوری ڈکیتی کیونکہ ان فنون کا بانی بھی وہ ہے، کافی مغز کھپائی کے باوجود بھی جب وہ نہیں مانے تو ہم نے آخری پتہ پھینکا۔ٹھیک ہے لگے رہو علامہ بھائی۔لیکن مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ کی جان کا زیاں نہ ہو جائے کیونکہ جن علوم وفنون کا بانی آپ نے بتایا، ان میں سے ایک فن کو آپ بھول گئے۔علامہ نے کچھ سوچا پھر ایک جھرجھری لی اور اپنی گرج دار آواز کو تقریباً مردہ کرتے ہوئے بولے۔لیکن میں صلح پسند آدمی ہوں اس سے کہو کہ جو چاہے خود کو بتایا کرے مجھے کیا؟

Similar Posts