اسی طرح ایک ریسرچ جرنل کے ایڈیٹرکا کہنا ہے کہ محقق اب اپنے ریسرچ آرٹیکل بھی مکمل طور پر چیٹ جی پی ٹی سے ہی تیار کر کے بھیج رہے ہیں اور بعض تو ایسے ہیں کہ چیٹ جی پی ٹی سے اپنا آرٹیکل تیارکرنے کے بعد پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے، ایسے ہی اشاعت کے لیے بھیج دیتے ہیں۔
گویا ابتداء ہی میں اس سہولت سے ریسرچ کے کاموں میں دو نمبری شروع ہوگئی ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ معلوم کرنا بھی اب کوئی مشکل کام نہیں کہ کوئی تحقیق یا آرٹیکل کتنا فیصد مواد چیٹ جی پی ٹی سے حاصل کیا گیا ہے۔ تھوڑے ہی دنوں کی بات ہے کہ ایک انگریزی اخبارکے صحافی نے اسی سہولت سے ایک خبر تیارکی اور اشاعت کے لیے دیدی مگر آخرکی چند سطور کو وہ پڑھنا بھول گئے اور اسے ایڈٹ نہیں کرسکے کہ جس سے پتہ چل رہا تھا کہ خبرکس ذریعے سے تیارکی گئی ہے۔ خیر یہ توکچھ عام سی باتیں اور غلطیاں ہیں جوآئے روز منظر عام پر آرہی ہیں مگر بات اب اس سے بھی کہیں آگے نکل گئی ہے۔
کچھ واقعات ایسے بھی سامنے آئے کہ جن سے معلوم ہوا کہ یہ سہولت آپ کو اس قدرغلط رہنمائی فراہم کرسکتی ہے کہ آپ اپنی زندگی کا ہی خاتمہ کر بیٹھتے ہیں۔
کئی نوجوان ’’ چیٹ جی پی ٹی‘‘ سے رہنمائی لیتے لیتے جب خود کشی سے متعلق بات کرنے لگے تو یہی چیٹ جی پی ٹی انھیں موت کے منہ میں لے گئی۔ والدین یہی سمجھتے رہے کہ ان کا بیٹا اس سہولت کے استعمال سے کوئی کارنامہ انجام دے گا مگرافسوس کہ ان کے وہم گمان میں بھی یہ نہ آیا کہ ان کے بیٹے کو چیٹ جی پی ٹی زندگی میں کسی کارنامے کے لیے نہیں بلکہ زندگی سے فرارکے لیے مدد فراہم کر رہی ہے۔ اگست کے مہینے میں ایک نوجوان’’ آدم رین‘‘ نے خود کشی کر لی۔ بعد میں والدین کو معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ خود کشی کے موضوعات پر بات کرتا رہا تھا۔
یہ اپنی نوعیت کا خود کشی کا کوئی پہلا واقعہ نہ تھا بلکہ اس سے قبل بھی کئی واقعات ہو چکے تھے، چنانچہ اس واقعے کے بعد سات مختلف خاندانوں نے (جن کی اولادیں خود کشی کرچکی تھیں) خودکشی پر اُکسانے پر چیٹ جی پی ٹی کے خلاف کیلیفورنیا کی عدالت میں ’’ اوپن اے آئی‘‘ نامی کمپنی پر مقدمہ دائرکردیا۔ ان والدین کا اس کمپنی پر الزام ہے کہ اس کی مذکورہ سروس نے نوجوانوں کو خود کشی کی طرف راغب کیا۔
ان مختلف واقعات کے مطابق جارجیا کے 17 سالہ نوجوان امورای لَیْسی کے خاندان نے دعویٰ کیا کہ چیٹ جی پی ٹی نے ان کے بیٹے کو خود کشی کی طرف راغب کیا، جب کہ ٹیکساس کے 23 سالہ نوجوان زین شامبلن کے اہل خانہ نے الزام لگایا کہ چیٹ جی پی ٹی نے ان کے بیٹے کو والدین سے الگ تھلگ کردیا اور تنہائی کی طرف دھکیلا، جس کے بعد اس نے خود کشی کر لی۔ والدین کے مطابق شامبلن نے خود پر فائرنگ کرنے سے پہلے چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ چارگھنٹے طویل گفتگوکی، جس دوران چیٹ بوٹ نے بارہا خودکشی کی تعریف اور 988 ذہنی بحران ہیلپ لائن کا ذکر صرف ایک بار کیا۔ مقدمہ دائرکرنے والے ان والدین نے مالی معاوضے کے ساتھ ساتھ چیٹ جی پی ٹی میں تبدیلیوں کا مطالبہ کیا، جن میں خودکشی سے متعلق بات چیت شروع ہونے پر مکالمہ خودکار طور پر ختم کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔
اس تمام تر صورتحال کے بعد اوپن اے آئی نامی کمپنی نے ایک ای میل بیان میں گہرے افسوس کا اظہارکیا اورکہا کہ یہ ایک نہایت تکلیف دہ صورتِ حال ہے، ہم تفصیلات سمجھنے کے لیے جمع کرائی گئی فائلوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
اگرچہ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے اس ضمن میں اکتوبر میں اپنے نئے ماڈل میں تبدیلیاں کی ہیں، جو اب ذہنی دباؤ یا پریشانی کو پہچاننے اور مناسب رد عمل دینے کے قابل ہے اور ایسے صارفین کو مدد فراہم کرنے والے ذرایع کی طرف رہنمائی کرتا ہے لیکن یہ ابھی بہت ناکافی ہے۔
امریکا میں قانون سازوں کی جانب سے چیٹ بوٹس کے ضوابط کے حوالے سے مصنوعی ذہانت کی کمپنیوں پر نگرانی میں اضافہ کیا جا رہا ہے، جب کہ بچوں کے تحفظ کے کارکنوں اور سرکاری اداروں کی جانب سے بھی زیادہ مضبوط حفاظتی اقدامات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو اس اہم انسانی مسئلے پر امریکا میں پیش آنے والے اس انسانی مسئلے پرغوروخوض شروع ہوگیا ہے اور حکومت، ادارے نیز عوام سب ہی فکرمند ہیں۔
بہرکیف سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ انسانی جدت اور سہولت،کسی انسان کی طرح جذبات رکھنے سے عاری ہے۔ اب اے آئی مزید کتنی ہی ایڈوانس کیوں نہ ہو جائے، جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اس میں کبھی بھی انسانی جذبات شامل نہیں ہوسکتے، یہ ایک مشینی عمل ہے جس میں جذبات اور احساسات کا کوئی دخل نہیں، یعنی اس کے ذریعے جذبات کو ابھارا تو جاسکتا ہے لیکن جذبات کو سمجھنا، محسوس کرنا، اس ٹیکنالوجی کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کے جذبات اور احساسات کو اس ٹیکنالوجی نے محسوس نہیں کیا اور نہ ہی یہ محسوس کیا کہ خودکشی کرنے والوں کے والدین کے کیا احساسات ہونگے اور خودکشی کرنے والے نوجوانوں کے والدین پرکیا گزرے گی؟
یہ ایک اہم مسئلہ ہے، جو اس ٹیکنالوجی کے ابتدائی دور میں سامنے آچکا ہے اور اس کا آغاز بھی اس معاشرے سے ہوا ہے، جہاں سے متعارف ہوئی ہے۔ یہ معاشرہ اس سے کیسے نمٹتا ہے، یہ ایک اہم سوال ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے جیسے دیگر معاشرے اس سے کیسے نمٹیں گے؟ یہ ہمارے لیے ایک چیلنج ہے،کیونکہ مغرب سے جب بھی جو بھی ٹیکنالوجی ہمارے ہاں آئی، ہم نے مغرب سے بڑھ کر اس کی پوجا کی ہے۔ مثلاً جب وی سی آر ہمارے ہاں آیا تو پوری پوری رات ایک وی سی آر سے ’’ لیڈ ‘‘ لگا کر پورا محلہ چار سے پانچ انڈین فلمیں دیکھتا تھا، ایسا استعمال توگورے نے شاید زندگی میں ایک بار بھی کیا نہ ہوگا۔ بہرکیف احتیاط ضروری ہے۔ آیے! اس پہلو پرغورکریں۔